آیت 14
 

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

تشریح کلمات

الۡقَنَاطِیۡرِ:

( ق ن ط ر ) قنطار کی جمع ہے۔ کثیر مال۔ مقنطرۃ ذخیرہ شدہ مال کثیر۔

الۡمُسَوَّمَۃِ:

( س و م ) نشان زدہ۔ عمدگی کی علامت کے طور پر عرب اپنے گھوڑوں پر نشانی لگاتے تھے۔

مَتَاعُ:

( م ت ع ) سامان زیست۔

تفسیر آیات

یہاں دنیاوی زندگی کے اسباب اور وسائل کی مذمت نہیں ہو رہی، بلکہ ان سے عشق و محبت کی مذمت ہو رہی ہے۔ بالفاظ دیگر متاع زندگی اور سامان حیات کے بارے میں موقف درست کرنے اور ایک غلط فہمی کو دور کرنے کی بات ہے۔

دنیاوی زندگی کے مال و متاع کو اصلی مقصد قرار دے کر اگر اس سے محبت کی جائے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق قابل مذمت ہے۔ لیکن اگر مال و متاع کو ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے وسیلہ اور ذریعہ قرار دیا جائے تو اس کی نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں، بلکہ قرآن نے اسے خیر سے تعبیر کیا ہے۔ اسی سلسلے میں ارشاد ہے:

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ۔۔۔ (۷ اعراف: ۳۲)

کہدیجیے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی، کس نے حرام کیا اور پاک رزق کو ؟

مال و متاع دنیاکی مثال کشتی اور پانی سے دی جاتی ہے کہ جب تک پانی کشتی کے نیچے رہے تو یہ کشتی کو دریا پار لے جانے کے لیے بہترین ذریعہ ہے، لیکن اگر پانی کشتی کے اندر چلا جائے تو یہی پانی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مال و متاع کو وسیلہ بنایا جائے تو بہترین ذریعہ سعادت ہے اور اگر مال و دولت کو مقصد بنا لیا تو یہ مال انسان کو ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر مال دولت پر انسان مسلط رہا تو یہ انسان کے ماتحت ہو کر ذریعہ سعادت بنے گا اور یہی مال اگر انسان پر مسلط ہو گیا تو یہ زر کا غلام بن کر ہلاک ہو جائے گا۔ کیونکہ روحانی مقاصد کا حصول مادی وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا اسلام کوئی ایسا حکم صادر نہیں کرے گاجو فطرت کے منافی ہو۔

۱۔ مِنَ النِّسَآءِ : ان خواہشات پرستی میں سب سے پہلے عورتوں کا ذکر آتا ہے۔ اگر خواہشات کو لگام نہ دی جائے تو عورت سب سے خطرناک فتنہ ے۔ حدیث میں ہے:

ما ترک بعدی فتنۃ اضر علی الرجال من النسآء (مستدرک الوسائل ۱۴: ۳۰۲)

میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک آزمائش نہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔

لیکن قانون اور شرافت کے دائرے میں رہ کر اس خواہش کو پورا کرنا قابل مذمت نہیں ہے۔ رسول کریم ؐ کی یہ حدیث مشہور ہے:

ما احب من دنیاکم الا النسآء و الطیب ۔ (الکافی ۵: ۲۲۱)

میں تمہاری اس دنیا سے صرف عورتوں اور خوشبو کو پسند کرتا ہوں۔

۲۔

وَ الۡبَنِیۡنَ : لڑکے اگر صرف دنیاوی فخر و مباہات کے لیے ہوں تو مذمت ہے لیکن یہی اولاد اگر صالح ہو تو فضلیت ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

الولد الصالح ریحانۃ من اللہ۔ (الکافی ۶: ۲ باب فضل الولد)

نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے گلدستہ ہے۔

۳۔ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ: اس مال کی مذمت ہے جس میں خود مال مقصد ہوتا ہے اور اسے ذخیرہ کیا جاتا اور اس حبّ مال کی وجہ سے ملک کا سرمایہ چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتا ہے۔ قرآنی تعبیر کے مطابق قناطیر یعنی کثیر مال اس وقت مذموم ہے جب یہ مقنطرۃ ذخیرہ کی شکل میں آ جائے اور ضرورت مندوں کو اس سے کوئی استفادہ نہ ہو۔ یہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۳۴ کے معنی میں ہے، جس میں فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ

اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

آگے دولت سمیٹنے والوں کے ذرائع کا ذکر ہے۔ وہ سونا چاندی، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی باڑی ہے۔

یہی سونا چاندی راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے، عمدہ گھوڑے جہاد کے لیے، مویشی اور کھیتی باڑی اپنی معیشت کے لیے ہو تو ان میں کوئی مذمت نہیں، فضلیت ہے۔

اہم نکات

۱۔ دنیاوی نعمات سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں، بلکہ انہیں اصلی مقصد قرار دینا ممنوع ہے۔

۲۔ دنیاوی مال و متاع کو نجات آخرت کا ذریعہ بنانے کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان اپنے اندر متقین کے اوصاف پیدا کرے۔

۳۔ عمل کی درستی عقیدے و نظریے کی درستی پر موقوف ہے۔


آیت 14