آیت 18
 

شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

شَہِدَ:

( ش ھ د ) شہادت۔کسی چیز کا مشاہدہ کرنا اور وہ بات جو یقین کامل کے ساتھ کہی جائے۔ البتہ مشاہدہ شرط ہے، خواہ وہ عینی ہو یا قلبی۔

بِالۡقِسۡطِ:

( ق س ط ) عدل و انصاف۔

تفسیر آیات

اس آیہ مبارکہ میں اللہ کی وحدانیت پر تین شہادتوں کا ذکر ہے جو نہایت قابل توجہ ہیں:

۱۔اللہ کی شہادت: اللہ کی وحدانیت پر سب سے پہلی شہادت خود اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قولاً و فعلاً اپنے عدل اور اپنی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔ قولاً اسی آیت میں شہادت دے رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل و انصاف پر قائم ہے۔ عملی شہادت یہ ہے کہ اللہ کا ہر عمل اور کائنات کی ہر چیز اور اس میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اللہ کی وحدانیت اور عدل پر دلالت کرتا ہے۔ کائنات کا نظام بذات خود ایک عملی گواہ ہے:

یَا مَنْ دَلََّ عَلَی ذَاتِہِ بِذَاتِہِ ۔ (بحار الانوار ۸۴: ۳۳۹)

اے وہ ذات جو خود اپنی ذات پر دلیل ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ کائنات کا نظام کس طرح اللہ کی وحدانیت پر گواہ ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ ذرے سے لے کر نظام شمسی اور کہکشاؤں تک سارا نظام کائنات ایک ہی طرز کے نظام پر قائم ہے۔ چنانچہ ذرے (atom) میں ایک شے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور مختلف ذرات اس کے گرد گھومتے ہیں۔ یہی نظام، شمسی نظام اور کہکشاؤںمیں بھی کار فرما ہے۔ نظام کائنات کی وحدت اور ہم آہنگی ملاحظہ ہوکہ یہاں سب چیزیں اپنے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔الیکٹران اپنے مرکزے کے گرد گھومتے ہیں۔ سیارے گھومتے ہیں، سورج گھومتاہے، چاند گھومتاہے، ستارے گھومتے ہیں، کہکہشائیں گھومتی ہیں۔ اس طرح مخلوق کی وحدت، خالق کی وحدت پر دلالت کرتی ہے۔ اگر نظام دہندہ ایک نہ ہوتا تو کائناتی نظام اور انسانی وجود میں تصادم اور تضاد واقع ہوتا۔ اس کے تکوینی اور تشریعی نظاموں میں ناہم آہنگی ہوتی۔ نظام دہندہ مختلف ہوتے تو نظام بھی مختلف ہوتے۔ سچ فرمایاخالق نے:

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۔۔۔۔(۲۱ انبیاء: ۲۲)

اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے۔

بعض اوقات اس نظام میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں مضمر حکمت اور عدالت ہماری فہم و ادراک میں نہیں آتی اور شک پیدا ہوتا ہے، لیکن ایسے واقعات دو صورتوں سے خالی نہیں ہیں یا توان میں مضمر حکمت و فلسفہ اور عدل و انصاف بعد میں سمجھ میں آتا ہے، یعنی ان کا انکشاف اور علم حاصل ہو جاتاہے یا اس راز کا انکشاف نہیں ہوتا۔ اگر انکشاف نہ ہو تو اس صورت میں بھی عدل و انصاف کے ر از کا علم نہ ہونا، عدل و انصاف کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بنتا۔ لہٰذا صحیفہ کائنات، اللہ کی وحدانیت پر دلیل ہے۔ اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود بھی اس کائنات میں دخیل ہوتا توہر ایک اپنے لیے عدل و انصاف کرتا، لیکن دوسرے کی نسبت عدل سے کام نہ لیتا، جب کہ پوری کائنات پر عدل و انصاف حاکم ہے۔

اللہ کی وحدانیت پر پختہ یقین رکھنا اور اس کے عدل و انصاف پر ایمان رکھنا، اس آیت کی روحِ مطلب ہے، کیونکہ انسان جب تک آسودہ رہتا ہے، خدا کو عادل اور منصف تصور کرتا ہے، مگر جب کسی امتحان سے دوچار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عدالت کا سوال اٹھاتا ہے۔ لہٰذا صحیح مومن وہ ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو عادل سمجھے اور اس کے ہر فیصلے کو تَسْلِیْمًا لِاَمْرِہِ وَ رِضًا بِقَضَائِہِ کے طور پر قبول کرے۔

۲۔ ملائکہ کی شہادت: فرشتے اس نظام کائنات کے کارندے ہیں اور اسی وجہ سے اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف کا براہ راست علم رکھتے اور حکم خدا سے کائنات کے بہت سے انتظامی امورانجام دیتے ہیں:

بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ()لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ﴿﴾ (۲۱ انبیاء: ۲۶۔ ۲۷)

بلکہ یہ (فرشتے) تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔ وہ تو اللہ(کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

۳۔ صاحبان علم کی شہادت: صاحبان علم بھی اللہ تعالیٰ کے نظام عدل میں موجود راز ہائے پنہاں کو جانتے ہیں اور صحیفہ آفاق و انفس کے صفحات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں:

رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا() (۳ آل عمران: ۱۹۱)

ہمارے پروردگار!یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا۔

اس آیت سے اہل علم کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ہوتاہے کہ اللہ اور فرشتوں کے بعد اہل علم ہی اس کائنات میں شہادت کے قابل ہیں۔

۴۔ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ: وہ تدبیر کائنات، جزائے اعمال اور نظام علل و اسباب میں عادل ہے:

وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿﴾ (۵۳ نجم: ۳۹)

اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔

منکر و ملحد کا پودا اسی طرح پھلتا پھیلتا ہے، جس طرح مؤمن و متقی کا اور گناہ کی سزا ایک اور نیکی کی جزا دس گنا نیز خود عدل و انصاف کا فہم و شعور ہمارے ذہنوں میں موجودہونا، اس بات پر دلیل ہے کہ ہمارا خالق اور ہمارا معبود عدل و انصاف کا خالق اور مالک ہے۔

احادیث

جابر بن عبد اللہ راوی ہیں کہ پیغمبر اکر م (ص) نے فرمایا:

سَاعَۃ مِنْ عَالِمٍ یَتَّکِیْٔ عَلیَ فِرَاشِہ یَنْظُر فِیْ عِلْمِہِ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ العَابِدِ سَبْعِیْنَ سَنَۃ ۔ (جامع الاخبار ص ۳۷۔ روضۃ الواعظین ۱: ۱۲)

عالم کا اپنے بستر پر تکیہ لگا کر ایک گھڑی اپنے علم میں غور و فکر کرنا، عابد کی ستر سالوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

اس آیت کی فضیلت میں رسول خدا (ص) سے مروی ہے:

مَنْ قَرَأَ آیَۃَ شَہِدَ اللہُ۔۔۔، عِنْدَ مَنَامِہِ خَلَقَ اللہْ تَعالیٰ لَہٗ سَبْعِیْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ اِلَی یَوْمِ القِیٰمَۃِ (بحار الانوار ۸۴: ۱۷۹۔ مجمع البیان ۱: ۷۱۷)

جو شخص آیہ شَہِدَ اللّٰہُ ۔۔۔ کو سونے کے وقت پڑھے، اللہ تعالیٰ اس سے ستر ہزار فرشتے پیدا فرمائے گا جو اس شخص کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہیں گے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی وحدانیت اور عدل کی شہادت قرآن میں قولاًاور نظام کائنات میں عملاً موجود ہے۔

۲۔ مومن زندگی کے تمام امتحانات میں اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل پر پورا ایمان رکھتا ہے۔

۳۔ اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف کے گواہ، نزدیک سے مشاہدہ کرنے والے فرشتوں کے بعد صاحبان علم ہی ہیں۔


آیت 18