برہان نظم


شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

18۔ یہاں توحید و عدل پر تین شہادتوں کا ذکر ہے۔ اوّل خود اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل قائم کرنے والا ہے۔ چنانچہ اس کی کتابِ آفاق و انفس کا ہر صفحہ اور ہر سطر اس کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف پر دلالت کرتی ہے اور ذرے سے لے کر کہکشاؤں تک نظام کی وحدت، خالق کی وحدت کی دلیل ہے۔ یا من دل علی ذاتہ بذاتہ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ۔ دوم فرشتوں کی شہادت۔ چونکہ فرشتے نظام کائنات کے کارندے ہیں اس لیے اللہ کی وحدانیت اور اس کے عدل و انصاف کا علم رکھتے ہیں اور شہادت کا حق صرف انہیں حاصل ہوتا ہے جو علم رکھتے ہوں۔ سوم صاحبان علم جو صحیفۂ آفاق و انفس کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں: رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۔(آل عمران ۱۹۱)

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

67۔ کائناتی نظام میں باہمی ربط اور وحدت سے خالقِ نظام کی وحدت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ رات کا وجود دن کے وجود کے ساتھ متصادم ہو بلکہ یہ دونوں ایک نظام کی تشکیل میں مددگار ہیں۔ قرآن توحید کے اثبات کے لیے دن اور رات کی حکمت پر زیادہ تکیہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین پر بسنے والوں کے لیے کائنات کے سب سے زیادہ واضح اور محسوس مظاہر قدرت ہیں۔

اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾

۴۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔

1 تا4۔ قسم ان فرشتوں کی جو صف بستہ عبادت میں کھڑے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم جو شیاطین کو دور بھگا دیتے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم جو وحی کی تلاوت کرتے ہیں کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ یعنی عالم بالا، عالم ارضی اور ان دونوں کے درمیان جو نظام قائم ہیں وہ صرف ایک ہی معبود کی نشاندہی کرتے ہیں۔

الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

3۔ 4 یعنی رحمن کی تخلیق میں تفاوت نہیں ہے۔ بدنظمی نہیں ہے۔ سورج کی دھوپ سے سمندر سے بخار اٹھتا ہے، بادل وجود میں آتے ہیں، ہوا بادل کو چلاتی ہے، خشک علاقوں میں بارش برستی ہے۔ دانے اور میوے اگتے ہیں، دستر خوانوں کی زینت بنتے ہیں، غذا بن جاتے ہیں، پھر خون بن جاتے ہیں۔ یہ خون تحلیل شدہ جسم کی تلافی کر کے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر تحلیل ہو کر کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جاتے ہیں وہ درخت پھل دیتا ہے۔ یہ دورہ پھر شروع ہوتا ہے۔ دیکھو: ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ۔ کیا اس گردش میں کوئی خلل ہے؟

رحمٰن کی تخلیق کے بارے میں اس آیت اور بعد کی آیت میں بار بار اللہ تعالیٰ کی صناعی کا مطالعہ کرنے کا حکم ہے کہ تلاش کرو، اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ اپنی تحقیق کو جاری رکھو۔ کَرَّتَیۡنِ بار بار تحقیق کرو۔ كَرَّتَيْنِ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ کی طرح ہے۔ صرف دو مرتبہ کے لیے نہیں، بار بار کرنے کے لیے ہے۔ آخرکار تحقیق کنندہ کائنات میں کوئی خلل نہیں پا سکے گا۔

خَاسِئًا : ناکام ہو جانا۔ حَسِیۡرٌ تھک جانا۔ یعنی نگاہیں اس کائنات میں خلل تلاش کرنے میں ناکام رہ جائیں گی۔

ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ پھر پلٹ کر دوبارہ دیکھو تمہاری نگاہ ناکام ہو کر تھک کر تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔