آیت 19
 

اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی انہوں نے علم حاصل ہو جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتا ہے تو بے شک اللہ (اس سے)جلد حساب لینے والا ہے۔

تشریح کلمات

الدِّیۡنَ:

( د ی ن ) اطاعت اور جزاء کے معنی میں استعال ہو تاہے۔ بطور استعارہ شریعت کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ اصطلاح میں اللہ کے تعیین کردہ دستور اور نظام حیات کو دِین کہتے ہیں۔

الۡاِسۡلَامُ:

( س ل م ) اسلام کا معنی امن و آشتی اور صلح میں داخل ہونا ہے۔ اللہ کے دین میں داخل ہونے سے امن اور سلامتی ملتی ہے۔ یہ کلمہ سر تسلیم خم کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ: خدائے واحد نے انسان کو ایک ہی نظام حیات اور طریقہ زندگی عنایت فرمایا ہے اور انسانوں تک اس نظام حیات کو پہنچانے کے لیے انبیاء بھیجے ہیں۔ ہر نبی نے اپنے عصری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو اللہ کا عطا کردہ ضابطہ حیات پہنچایا۔ ان سب کا پیغام مشترک ہے اور وہ ہے اسلام، جو توحید اور نفی شرک کا مذہب ہے۔

مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام، اسلام کی تعریف یوں فرماتے ہیں:

لَاَنْسُبَنَّ الْاِسْلَامَ نِسْبَۃً لَمْ یَنْسُبْھَا اَحَدٌ قَبْلِی الْاِسْلَامُ ھُوَ التَّسْلِیْمُ وَ التَّسْلِیْمُ ھُوَ الْیَقِیْنُ وَ الْیَقِیْنُ ھَوُ التَّصْدِیْقُ وَ التَّصْدِیْقُ ھُوَ الْاِقْرَارُ وَ الْاِقْرَارُ ھَوَ الْاَدَائُ وَ الْاَدَائُ ھَوَ الْعَمَلُ ۔(نہج البلاغۃ کلمات قصار: ۱۲۵ ص ۸۰۷۔ ترجمہ مفتی جعفر حسینؒ)

میں اسلام کی ایسی تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی: اسلام سر تسلیم خم کرنا ہے اور سرتسلیم خم کرنا یقین ہے، یقین تصدیق ہے اور تصدیق اعتراف ہے، جب کہ اعتراف فرض کی ادائیگی ہے اور فرض کی ادائیگی عمل کہلاتی ہے۔

اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے اور ہر قسم کے شرک کی نفی ہے۔ نفی شرک ابو الانبیاء حضرت ابراہیم اور تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ہے:

ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿﴾ (۱۶ نحل: ۱۲۳)

(اے رسول) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔

اسی نفی شرک کی بنیاد پر حضرت ابراہیم (ع) کو مُسْلِمْ کہا گیا ہے:

مَا کَانَ اِبۡرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّ لَا نَصۡرَانِیًّا وَّ لٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۶۷)

ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ وہ یکسوئی کے ساتھ مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے ہرگز نہ تھے۔

۲۔ وَ مَا اخۡتَلَفَ : واضح رہے کہ اہل کتاب نے اس دین واحد میں اختلاف پیدا کیا۔ اس کی وجہ ان کی لا علمی نہیں تھی، بلکہ وہ جانتے تھے کہ دین میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ جانتے ہوئے آپس کی ضد بازی میں اور ایک دوسرے پر زیادتی کی توجیہ کرنے کے لیے اختلاف کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف قتال کرتے نیز دین میں تصرف و تحریف کرتے اور اپنے ذاتی مفادات کو دین پرمقدم رکھتے تھے۔

۳۔ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ : ادیان عالم کے ماہرین جانتے ہیں کہ ۳۲۵ء میں شاہ قسطنطین نے مسیحی مذہب کے توحید پرستوں پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگایا اور ان کی کتابوں کو آگ لگا دی۔ بعد میں جب تثلیث پر مبنی ان کے مذہب کی جڑیں مضبوط بنا دی گئیں تو ۶۲۸ء میں ایک قانون کے ذریعے ان توحید پرستوں کی نسل کشی کی گئی۔(تفسیر مراغی ۳:۱۲۰)

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس امت نے بھی آپس میں دست بہ گریباں ہونے، تکفیر و قتال اور کتب سوزی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اور اب تک یہ سلسلہ شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسانی نجات کے لیے اللہ کی طرف سے ایک ہی دین آتا رہا ہے جو اسلام ہے۔

۲۔ اہل کتاب نے جاہ پرستی اور مفادات کی وجہ سے دین واحد میں اختلاف ڈالا۔


آیت 19