آیت 13
 

قَدۡ کَانَ لَکُمۡ اٰیَۃٌ فِیۡ فِئَتَیۡنِ الۡتَقَتَا ؕ فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ اُخۡرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوۡنَہُمۡ مِّثۡلَیۡہِمۡ رَاۡیَ الۡعَیۡنِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ﴿۱۳﴾

۱۳۔ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) باہم مقابل ہوئے ایک نشانی تھی، ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا وہ (کفار) ان (مسلمانوں) کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہے تھے اور خدا جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے اس کی تائید کرتا ہے، صاحبان بصیرت کے لیے اس واقعے میں یقینا بڑی عبرت ہے۔

تشریح کلمات

فِئَۃٌ:

(ف ی ء) اس سے مراد وہ جماعت ہے جس کے افراد باہمی تعاون کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

یُؤَیِّدُ:

( أ ی د ) تائید کرنا۔ تقویت دینا۔

تفسیر آیات

سنہ ۲ ہجری میں واقع ہونے والی جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں جنگی ساز و سامان اور مقدار وغیرہ کے لحاظ سے مومنین اور کفار میں نمایاں فرق کے باوجود مومنین کوفتح و نصرت حاصل ہوئی، جو ایک معجزہ تھا۔ یہ رسول اللہ (ص) کی حقانیت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔

اس جنگ میں دشمن کے ایک ہزار جنگجوؤں کے مقابلے میں ۷۷ مہاجرین اور ۲۳۶ انصار پر مشتمل مسلمانوں کے صرف ۳۱۳ سپاہی تھے۔ ایک سو گھوڑوں کے مقابلے میں صرف دو گھوڑے تھے اور تلواروں کی مقدار بھی آٹھ سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے باوجود دشمن کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کے صرف بائیس افراد شہید ہوئے، جب کہ دشمن کے ستر افراد مارے گئے اور اتنے ہی اسیر ہو گئے۔

یَّرَوۡنَہُمۡ مِّثۡلَیۡہِمۡ رَاۡیَ الۡعَیۡنِ: وہ انہیں دوگنا دیکھ رہے تھے۔ یہاں یہ مسئلہ مورد بحث ہے کہ کس نے کس کو دوگنا دیکھا۔ کیا کفار نے مسلمانوں کو اپنے سے دوگنا یعنی دو ہزار دیکھا یا یہ کہ خود مسلمانوں کی حقیقی تعداد ۳۱۳ کا دوگنا ۶۲۶ یا کفار نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے دوگنا دیکھا۔

پہلا اور تیسرا نظریہ خلاف ظاہر ہے۔ احتمال قوی یہ ہے کہ کفار نے مسلمانوں کو ان کی حقیقی تعداد سے دوگنا دیکھا تھا۔ یہ ایک ایسی نشانی تھی جو رسول کریم (ص)کی حقانیت اور اسلام کی سچائی پر دلالت کرتی ہے۔

وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ: اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے اس کی تائید کرتا ہے۔ واضح رہے اللہ کی چاہت اور مشیت اندھی بانٹ نہیں ہے۔ اس کی تائید کے لیے اہلیت اور لیاقت شرط ہے۔ جیساکہ اللہ ارحم الراحمین ہے، لیکن اس کی رحمت کے لیے اہل ہونا شرط ہے۔

ۭاِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً: جنگ بدر میں ایک درس ایک سبق ایک عبرت ہے۔ صاحبان نظر کے لیے یعنی ان لوگوں کے لیے جو بصیرت کی نظر رکھتے ہیں، وہ دیکھ سکیں گے کہ طاقت کا توازن کس چیز میں ہے۔ سامان حرب میں ہے یا استقامت در حرب میں ہے۔

اہم نکات

۱۔ حق و باطل کامعرکہ ہمیشہ رہا ہے اور فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔

۲۔ طاقت کا توازن تعداد سے نہیں استعداد سے قائم ہوتا ہے۔

۳۔ تاریخی حقائق صاحب بصیرت انسان کے لیے درس عبرت ہوتے ہیں: لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ۔


آیت 13