آیت 20
 

فَاِنۡ حَآجُّوۡکَ فَقُلۡ اَسۡلَمۡتُ وَجۡہِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ؕ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡاُمِّیّٖنَ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔(اے رسول) اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو ان سے کہدیجئے: میں نے اور میری اتباع کرنے والوں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے اور پھر اہل کتاب اور ناخواندہ لوگوں سے پوچھیے: کیا تم نے بھی تسلیم کیا ہے؟ اگر یہ لوگ تسلیم کر لیں تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ موڑ لیں تو آپ کی ذمے داری تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر خوب نظر رکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِنۡ حَآجُّوۡکَ: یہ آیت نجران کے اس وفد کے بارے میں ہے جو مسیحیت اور اسلام کے حوالے سے بحث و مناظرہ کرنے کے لیے آیا تھا۔ ان کے بارے میں حکم ہوا کہ وہ آپ سے بحث کریں تو آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے: اَسۡلَمۡتُ وَجۡہِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ یعنی میں نے اور میرے پیروکاروں نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔ اس میں دلیل یہ ہے کہ جس اللہ کو تم بھی خالق مانتے ہو، ہم صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں، تمہیں بھی ایسا کرنا چاہیے اور اپنے خالق کی بندگی میں کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ ساتھ یہ بات بھی واضح فرما دی کہ جو لوگ اللہ کے لیے تسلیم و رضا کی منزل میں نہیں ہوتے، وہ کلمہ حق نہیں سمجھتے۔ ان سے بحث و مباحثہ بے نتیجہ ہے۔

وَجۡہِیَ: اپنی ذات کو وجہ (چہرہ) کے ساتھ اس لیے تعبیر فرمایا کہ چونکہ اکثر حواس چہرے میں ہیں۔شناخت بھی چہرے سے ہوتی ہے۔ چہرہ تسلیم کرے تو پورا وجود تسلیم کی منزل میں ہوتا ہے۔

۲۔ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ: اہل کتاب اور ناخواندہ لوگ یعنی مشرکین دونوں کو صرف اللہ کی بندگی کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ ان دونوں کے نزدیک خالق ہے۔ اگر وہ کسی دلیل کو سمجھنے اور ماننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس دعوت کو قبول کرلیں گے۔

۳۔ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ: کیا تم نے تسلیم کیا ہے تم اسلام قبول کرتے ہو؟ یہ جملہ بعض کے نزدیک حکم ہے۔ یعنی اسلام لے آؤ اور بعض کے نزدیک تہدید ہے۔ میرے نزدیک یہ جملہ تہدید ہے۔ اس پر وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ قرینہ ہے۔

۴۔ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا: اور اگر وہ قبول نہیں کرتے او ر منہ موڑ لیتے ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ ان کے گمراہ ہونے کے آپ(ص) ذمہ دار نہیں ہیں۔

۵۔ فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ: آپ(ص) کی ذمہ داری تبلیغ و دعوت ہے، نہ جبر و بحث۔ اللہ آپ (ص) کی دعوت و تبلیغ اور ان کے کفر و الحاد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان اپنی ذمہ داری نبھانے کا ذمہ دار ہے، نتیجے کا نہیں: فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ۔


آیت 20