اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ یَقۡتُلُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡقِسۡطِ مِنَ النَّاسِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے انصاف کا حکم دینے والوں کو بھی قتل کرتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُدۡعَوۡنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ وَ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے انہیں کتاب خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔

23۔ خیبر کے یہودیوں میں زنا اور اس کی تعزیرات کا ایک مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کیا۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے توریت کے حوالے سے شوہر دار عورت کے ساتھ زنا کرنے کی تعزیر کے طور پر سنگساری کا حکم دیا، لیکن یہودیوں نے اس بات کے ثبوت کے باوجود کہ یہ فیصلہ توریت کے مطابق ہے اسے ماننے سے انکار کر دیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جن کو کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے، سے مراد اہل کتاب و نصاریٰ ہیں۔ اس سے دو باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ اول یہ کہ اہل کتاب کے پاس موجود توریت و انجیل میں سے کچھ حصہ اللہ کا کلام ہے پوری نہیں، دوم یہ کہ جن آیات میں اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ کہا گیا ہے ان میں کتاب سے مراد کتاب کا ایک حصہ ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ۪ وَ غَرَّہُمۡ فِیۡ دِیۡنِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں: جہنم کی آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو نہیں سکتی اور جو کچھ یہ بہتان تراشی کرتے رہے ہیں اس نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔

24۔ ان سیاہ کاریوں کا اصل سرچشمہ ان کے باطل نظریات ہیں جن کے تحت وہ انسانیت سوز مظالم و جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہماری معاصر تاریخ بھی ان یہودیوں کے لرزا دینے والے جرائم و مظالم سے پر ہے۔ ان باطل نظریات میں سے کچھ یہ ہیں کہ یہودی کو جہنم کی آگ گنتی کے چند ایام کے سوا چھو نہیں سکتی نیز اولاد یعقوب اللہ کی برگزیدہ مخلوق ہے اور یہ کہ اولاد یعقوب سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں کوئی عذاب وغیرہ نہیں دیا جائے گا۔

فَکَیۡفَ اِذَا جَمَعۡنٰہُمۡ لِیَوۡمٍ لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ۟ وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔پس اس دن ان کا کیا حال ہو گا جب ہم ان سب کو جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہدیجئے: اے اللہ! (اے) مملکت (ہستی ) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

26۔ اللہ کی مشیت اندھی بانٹ نہیں ہوتی، وہ کچھ لوگوں کو حکومت از روئے احسان عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو از روئے انتقام عطا فرماتا ہے کہ وہ مزید جرم کا ارتکاب کریں۔ چنانچہ جب یزید لعین نے اسیرانِ اہل بیت علیہ السلام کے سامنے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے طنز کیا کہ اللہ نے مجھے عزت دی ہے اور تم کو ذلیل کیا تو جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے سورہ آل عمران کی آیت 178 کی تلاوت فرمائی جس میں یہی بتایا گیا ہے کہ ہم اس لیے مہلت دیتے ہیں لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا تاکہ وہ جرم میں اور بڑھ جائیں۔

تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۲۷﴾

۲۷۔ تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور تو ہی جاندار سے بے جان اور بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔

27۔ شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے میں اس بات کی ایک بین دلیل موجود ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک ذی شعور ذات ہے جس نے نہ رات کی تاریکی کو برقرار رکھا ہے اور نہ دن کی روشنی کو ہمیشہ جاری رکھا ہے، بلکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے میں داخل کیا جس سے اس زمین پر زندگی ممکن ہوئی۔ اگر رات دن کا تبادلہ نہ ہوتا تو کرﮤ زمین پر حیات ممکن نہ تھی۔

لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۲۸﴾

۲۸۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے کوئی طرز عمل اختیار کرو (تو اس میں مضائقہ نہیں) اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

28۔ آیت کا مضمون یہ ہے کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اولیاء نہ بناؤ۔ یعنی مومنین اور کفار کے درمیان ولایت کا رشتہ نہیں ہے۔ ولایت کی تعریف یہ ہے: الولایۃ عقد النصرۃ للموافقۃ فی الدیانۃ۔ (مجمع البیان) ولایت سے مراد باہمی نصرت و حمایت کا معاہدہ ہے جو ایک دین میں ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یعنی ان کی صلح و جنگ ایک ہو۔ یہ ولایت صرف مومنین کے درمیان آپس میں قائم ہے۔ حتیٰ کہ عصر رسالت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ ولایت مؤمنین کے درمیان بھی اس وقت تک قائم نہ ہوتی تھی جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔ اس قسم کی ولایت اور باہمی حمایت کہ جس سے جنگ و صلح ایک ہو جائے، کا عہد مومنین اور کفار کے درمیان قائم کرنا منع ہے۔ عموماً اولیاء کا ترجمہ دوستی کیا جاتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قرآن کفار کے ساتھ ہر قسم کے انسانی تعلقات کو ممنوع قرار دیتا ہے اور انسانوں میں نفرت کا درس دیتا ہے، حالانکہ اسلام ان کافروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا حکم دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔

قُلۡ اِنۡ تُخۡفُوۡا مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ اَوۡ تُبۡدُوۡہُ یَعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کہدیجئے:جو بات تمہارے سینوں میں ہے اسے خواہ تم پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ بہرحال اسے جانتا ہے نیز آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یَوۡمَ تَجِدُ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَیۡرٍ مُّحۡضَرًا ۚۖۛ وَّ مَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ ۚۛ تَوَدُّ لَوۡ اَنَّ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَہٗۤ اَمَدًۢا بَعِیۡدًا ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ اس دن ہر شخص اپنا نیک عمل حاضر پائے گا ، اسی طرح ہر برا عمل بھی، (اس روز) انسان یہ تمنا کرے گا کہ کاش یہ دن اس سے بہت دور ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

30۔ قرآن میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ روز قیامت ہر شخص اپنا عمل حاضر پائے گا۔ قدیم مفسرین تاویل کرتے تھے کہ نفس عمل دنیا میں ہو چکا، وہ دوبارہ حاضر نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا مراد سزا و جزائے عمل ہی ہو سکتی ہے۔ لیکن اب یہ بات قابل فہم ہو چکی ہے کہ عمل خود قابل دید ہے اور یہ آیت سمجھ میں آ جاتی ہے : وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ (ق: 4)۔ ہمارے پاس حفظ کرنے والی کتاب موجود ہے۔