آیت 17
 

اَلصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡمُنۡفِقِیۡنَ وَ الۡمُسۡتَغۡفِرِیۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ﴿۱۷﴾

۱۷۔ یہ لوگ صبر کرنے والے، راست باز، مشغول عبادت رہنے والے، خرچ کرنے والے اور سحر (کے اوقات) میں طلب مغفرت کرنے والے ہیں۔

تفسیر آیات

یہاں اہل تقویٰ کے چھ خصائل بیان کیے گئے ہیں:

۱۔ ان سے ایمان کی علامت، جو طلب مغفرت ہے، ظاہر ہوتی ہے۔ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا۔۔۔۔

۲۔ صبر: یعنی اطاعت پر صبر، ترک گناہ پر صبر اور مصیبت پر صبر۔

۳۔ سچائی: زبان کی سچائی کے علاوہ ظاہر کا باطن کے مطابق ہونا۔

۴۔ قنوت: یعنی عبادت میں مصروف رہنا۔

۵۔ انفاق: یعنی فیاضی اور راہ خدا میں خرچ کرنا۔

۶۔ وقت سحر (یعنی رات کے آخری حصے میں) طلب مغفرت کرنا۔ یہ نماز تہجد کی طرف اشارہ ہے۔ نماز وتر کے قنوت میں استغفار کیا جاتا ہے۔

احادیث

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

مَنْ قَالَ فِی وَتْرِہِ اِذَا اَوْتَرَ اَسْتَغْفِرُ اللہَ وَ اَتُوبُ اِلَیْہِ سَبْعِینَ مَرَّۃً وَ ھُوَ قائم

شخص نماز وتر میں ستر مرتبہ استغفر اللہ و اتوب الیہ حالت قیام میں پڑھے اور ایک سال تک اس پر

فَوَاظَبَ عَلَی ذَلِکَ حَتَّی تَمْضِیَ سَنَۃٌ کَتَبہُ اللہُ عِنْدَہُ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ وَ وَجَبَتْ لَہُ الْمَغْفِرَۃُ مِنَ اللہِ عَزَّ وَ جَلّ ۔ (ثواب الاعمال ص ۱۷۱۔ المیزان ۳ : ۱۱۹)

عمل کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کا شمار سحر کے وقت طلب مغفرت کرنے والوں میں فرمائے گا اور اس کے لیے مغفرت واجب ہو جائے گی۔

اہم نکات

۱۔ ایمان باللہ باعث مغفرت ہے۔

۲۔ متقی کی سب سے پہلی نشانی صبر و استقامت ہے۔ اَلصّٰبِرِیۡنَ ۔۔۔۔


آیت 17