وَ یُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا بِمَفَازَتِہِمۡ ۫ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوۡٓءُ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور اہل تقویٰ کو ان کی کامیابی کے سبب اللہ نجات دے گا، انہیں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔

62۔قرآنی تعلیمات میں یہ بات ایک مسلمہ امر ہے کہ خلق و تدبیر دو مختلف امور نہیں، جیسا کہ مشرکین نے خیال کر رکھا ہے کہ خالق تو اللہ ہے، لیکن امور کائنات کی تدبیر شریکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس آیت میں اسی بات کو واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ جہاں اللہ ہر شے کا خالق ہے، وہاں وہ ہر شے کا وکیل ہے۔ یعنی ہر شے اس کے سپرد ہے۔

لَہٗ مَقَالِیۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿٪۶۳﴾

۶۳۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں اور جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

63۔ اسی مسلمہ حقیقت کے تحت فرمایا: زمین و آسمان کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ بنا بر این یہ قدرتی بات ہے کہ مشرکین جو غیر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں خسارے میں ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اس ذات کو چھوڑتے ہیں جس کے پاس سب کچھ ہے اور ایسوں کے پاس جاتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔

قُلۡ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَاۡمُرُوۡٓنِّیۡۤ اَعۡبُدُ اَیُّہَا الۡجٰہِلُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ کہدیجئے: اے نادانو! کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی بندگی کروں؟

64۔ غیر اللہ کی بندگی کرنا اور اس سے لو لگانا جہالت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ جہالت کی وجہ سے واقع اور حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔ جب واقع کا علم نہ ہو گا تو جاہل ظن و گمان کے پیچھے چلنا شروع کرتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق: جاہل یا زیادتی کرتا ہے یا کوتاہی۔ لہٰذا جاہل زیادتی اور کوتاہی کے درمیانی گرداب میں پھنس جاتا ہے۔

وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور بتحقیق آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء کی طرف یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا اور تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

65۔اس قانون سے کوئی شخص بالاتر نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصوم ہیں۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شرک سرزد نہیں ہوتا، تاہم یہاں یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ اگر شرک کا عمل آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سرزد ہو جائے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل حبط ہو جائے گا۔ یہ اس طرح ہے، جیسا کہ فرمایا: قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ ۔ (زخرف:81) کہ دیجیے (اللہ کے لیے بیٹا ہونا محال ہے تاہم) اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا۔

بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ۔

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر شناسی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن پوری زمین اس کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور آسمان اس کے دست قدرت میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

67۔ اللہ کی ناقدری کا یہ عالم کہ کسی نے اللہ کی بیٹیاں بنا لیں، کسی نے اس کے لیے بیٹے اور بعض نے اللہ کے لیے ہاتھ، پاؤں، چہرہ اور اعضا و جوارح بنا لیے جو انسان کے لیے ہیں۔ تَعٰلٰی اللّٰہَ عَمَّا يَصِفُوْنَ ۔ اس ناقدری کی وجہ سے وہ آخرت اور یوم الحساب کے منکر ہیں، جس دن کل کائنات اللہ کے قبضہ قدرت میں ہو گی۔ دنیا میں کل کائنات اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، لیکن قیامت کے دن اس کا بھرپور اظہار ہو گا۔

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور (جب) صور میں پھونک ماری جائے گی تو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے، پھر دوبارہ اس میں پھونک ماری جائے گی تو اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔

68۔ اس آیت میں دو مرتبہ صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ پہلے صور سے سب مر جائیں گے، صَعِقَ کے معنی تو بے ہوشی کے ہیں لیکن اس کی تفسیر موت سے کی جاتی ہے۔ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ مگر جنہیں اللہ چاہے، وہ نہیں مریں گے۔ اس سلسلے میں مفسرین کے متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ چند ذوات پہلے صور میں زندہ رہیں، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مریں گی نہیں۔ دوسرے صور سے سب زندہ ہو جائیں گے۔

فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر (حکم خدا ) کا انتظار کرنے لگیں گے۔

وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

69۔ قیامت کے دن زمین نور پروردگار سے چمک اٹھے گی۔ بعض مفسرین اس سے مراد عدل و انصاف لیتے ہیں۔ لیکن علامہ طباطبائی کے نزدیک اس سے مراد پردوں کا ہٹنا اور حقائق کا عیاں ہونا ہے۔

سورئہ بقرہ آیت 143 کے حاشیے میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے: ولا یکون الشھداء علی الناس الا الائمۃ و الرسل ۔ (بحار الانوار 23: 351) لوگوں پر گواہ صرف ائمہ اور انبیاء مرسل ہو سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ کا ذکر ہے، جس میں رب العالمین خود ہر چیز سے آگاہ ہونے کے باوجود گواہ طلب کرے گا اور گواہی کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ وہاں انسان کو صرف اس کا عمل کام دے گا اور گواہ بھی عقائد کی روشنی میں انجام پانے والے عمل ہی کی گواہی دیں گے۔ واضح رہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک جیسا کہ منکر کے کردار کی کوئی قدر نہ ہو گی، ان عقائد کی بھی کوئی قدر نہ ہو گی جن کا کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔ اگلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ کی عدالت سے فارغ ہونے کے بعد گروہ در گروہ اہل جہنم، جہنم کی طرف اور اہل جنت، جنت کی طرف چلائے جائیں گے۔

وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اور ہر شخص نے جو عمل کیا ہے اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔