آیت 67
 

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر شناسی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن پوری زمین اس کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور آسمان اس کے دست قدرت میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ: لوگوں نے اللہ کی قدر و منزلت پہنچاننے کا حق ادا نہیں کیا کہ اللہ کی بندگی چھوڑ کر بے جان پتھروں اور لاشعور چیزوں کی پوجا کی، پھر قیامت کے منکر ہو کر اللہ کو ایک عبث کار فرض کیا ہے۔

سورہ انعام آیت ۹۱ میں فرمایا:

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ۔۔۔ (۶ انعام: ۹۱)

اور انہوں نے اللہ کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اسے پہچاننے کا حق تھا جب انہوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔

ان لوگوں نے اللہ کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا جیسا قدردانی کا حق ہے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ اس میں اللہ کی ناقدری یہ ہے کہ ان کے نزدیک اللہ نے انسان کو خلق تو کیا لیکن خلق کرنے کے بعد اسے بے لگام چھوڑ دیا۔ ان کے لیے ہدایت کا سامان فراہم نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا انسان کو خلق کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ لہٰذا اسے عبث خلق کیا۔

۲۔ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ: قیامت کے دن زمین اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہو گی۔ اگرچہ یہ زمین اور کل کائنات آج بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن آج دنیا چونکہ دار التکلیف اور دار امتحان ہے لہٰذا یہاں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے۔ طاغوتوں کی بھی یہاں اچھل کود ہوتی ہے مگر قیامت کے دن حکم خدا کے مقابلے میں کسی قسم کی جنبش کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہو گی۔ جیسے مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ اور لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ (۴۰ غافر: ۱۶) آج کس کی بادشاہت ہے؟ (جواب ملے گا) خدائے واحد، قہار کی، کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔

۳۔ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ: قیامت ایک کائناتی انقلاب کا نام ہے جس کے نتیجے میں آسمان لپیٹ لیا جائے گا اور نئی کائنات تخلیق ہو گی:

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۱۰۴)

اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے،

اہم نکات

۱۔ جو کائنات اللہ کے قبضۂ قدرت اور دست قدرت میں لپٹی ہوئی ہو گی اس میں کسی غیر اللہ کے لیے کون سا کام رہ جاتا ہے۔


آیت 67