آیت 68
 

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور (جب) صور میں پھونک ماری جائے گی تو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے، پھر دوبارہ اس میں پھونک ماری جائے گی تو اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔

تشریح کلمات

صعق:

( ص ع ق ) شدید آواز۔ شدید آواز سے عقل کا زائل ہونا، موت واقع ہونا کے معنوں میں ہے۔ کہتے ہیں صاعقۃ الموت۔ مہلک عذاب کو بھی صاعقہ کہتے ہیں۔ راغب نے اہل لغت کے حوالے سے تین صاعقۃ ذکر کیے ہیں : i۔ صاعقۃ الموت ii۔ صاعقۃ العذاب iii۔ صاعقۃ النار۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ: مسلم یہ ہے کہ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ ایک صور سے سب کی موت واقع ہو جائے گی، دوسرے صور سے سب کو زندہ کیا جائے گا۔

بعض کے نزدیک صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا: ایک نفخۃ الفزع ، دوسرا نفخۃ الصعق ، تیسرا نفخۃ القیام ہے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ نفخۃ الفزع اور نفخۃ الصعق ایک ہی صور کی دو تعبیریں ہیں چونکہ فزع ہولناکی کو کہتے ہیں اور پہلا صور پھونکنے کی صورت میں ظاہر ہے بڑی ہولناکی ہو گی جس سے سب مر جائیں گے چنانچہ قیام قیامت کو یوم الفزع الاکبر کہتے ہیں۔

چنانچہ صور پھونکنے کے بارے میں جن دو آیات میں فزع اور صعق کے الفاظ کا ذکرہے، دونوں کی تعبیر ایک جیسی ہے۔ فرمایا:

وَ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَفَزِعَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ﴿۸۷﴾ (۲۷ نمل: ۸۷)

اور جس روز صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے۔

اس آیت میں وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ قرینہ ہے کہ اس صور سے سب مرجائیں گے۔

۲۔ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ: اس صور کے پھونکنے سے اس کائنات میں موجود سب مرجائیں گے۔

۳۔ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ: سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔ اس جملے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کچھ ہستیاں زندہ رہ جائیں گی۔

بعض کہتے ہیں یہ زندہ رہ جانے والے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل ہیں جو سادات ملائکہ کہلاتے ہیں اوربعض کہتے ہیں مذکورہ ملائکہ اور حاملین عرش زندہ رہیں گے۔ چنانچہ بعض روایات میں اسی طرح آیا ہے۔

۴۔ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی: دوسری مرتبہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہوجائیں گے۔

واضح رہے قیامت ایک کائناتی انقلاب کا نام ہے۔ موجودہ کائنات کو لپیٹ لیاجائے گا اور پھر ایک نئی کائنات تخلیق ہو گی جس کی ابتداء نفخۃ الثانیہ سے ہو گی۔

۵۔ فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ: اس جملے کا ایک ترجمہ وہی ہے جو آیت کے ذیل میں اختیار کیا گیا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر (حکم خدا کا) انتظار کر رہے ہوں گے یا اس انتظار میں ہوں گے کہ ان کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔

صور کیا ہے؟ اس کی تفصیل کا سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ صرف اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم تکوینی کی ایک صورت ہے جو اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ (۳۶ یٰس: ۸۲ (ترجمہ) جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔) ایک فیصلہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کل کائنات کا انقلاب ہے۔


آیت 68