انبیاء اور ائمہ کی گواہی


وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

69۔ قیامت کے دن زمین نور پروردگار سے چمک اٹھے گی۔ بعض مفسرین اس سے مراد عدل و انصاف لیتے ہیں۔ لیکن علامہ طباطبائی کے نزدیک اس سے مراد پردوں کا ہٹنا اور حقائق کا عیاں ہونا ہے۔

سورئہ بقرہ آیت 143 کے حاشیے میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے: ولا یکون الشھداء علی الناس الا الائمۃ و الرسل ۔ (بحار الانوار 23: 351) لوگوں پر گواہ صرف ائمہ اور انبیاء مرسل ہو سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ کا ذکر ہے، جس میں رب العالمین خود ہر چیز سے آگاہ ہونے کے باوجود گواہ طلب کرے گا اور گواہی کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ وہاں انسان کو صرف اس کا عمل کام دے گا اور گواہ بھی عقائد کی روشنی میں انجام پانے والے عمل ہی کی گواہی دیں گے۔ واضح رہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک جیسا کہ منکر کے کردار کی کوئی قدر نہ ہو گی، ان عقائد کی بھی کوئی قدر نہ ہو گی جن کا کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔ اگلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ کی عدالت سے فارغ ہونے کے بعد گروہ در گروہ اہل جہنم، جہنم کی طرف اور اہل جنت، جنت کی طرف چلائے جائیں گے۔