فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے

71۔ اس سلسلہ تعلیم کا پہلا سبق شروع ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام سے ایسا عمل سرزد ہوتا ہے جو عقل و ضمیر کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اس واقعے کی ظاہری صورت یہ ہے کہ یہ کشتی چند مسکینوں کا واحد ذریعۂ معاش تھی اور وہ بھی حادثے کی نذر ہو گئی۔ ظاہر بین نگاہوں کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ ان مسکینوں کا ذریعۂ معاش بھی چھن جائے، جبکہ اس واقعہ کا باطنی پہلو یہ ہے کہ اس حادثے کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش بچ جاتا ہے۔

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۲﴾

۷۲۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟

قَالَ لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ وَ لَا تُرۡہِقۡنِیۡ مِنۡ اَمۡرِیۡ عُسۡرًا﴿۷۳﴾

۷۳۔موسیٰ نے کہا: مجھ سے جو بھول ہوئی ہے اس پر آپ میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے اس معاملے میں مجھے سختی میں نہ ڈالیں۔

73۔ یہاں بھول بقول بعض مفسرین ترک کے معنوں میں ہے۔ یعنی میں نے جو عہد آپ کے ساتھ کیا تھا اس پر عمل کرنا ترک ہوا، اس پر معذرت چاہتا ہوں۔ یہ نامناسب اور غیر ضروری عمل سرزد ہوتے دیکھ کر بادی النظر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ردعمل ظاہر ہونا اور برہم ہونا فطری ہے۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا﴿۷۴﴾

۷۴۔پھر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس نے لڑکے کو قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا : کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا؟ یہ تو آپ نے واقعی برا کام کیا۔

74۔ اس سلسلہ تعلیم کا دوسرا درس شروع ہوا۔ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ قابل سرزنش اور ناقابل تحمل جرم سرزد ہوتے ہوئے دیکھا۔ ایک بیگناہ پاکیزہ جان کا قتل۔ اس مرتبہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر نہ کر سکے۔ ان کا وجدان، ضمیر اور جذبہ اس عہد پر غالب آ گیا جو حضرت خضر علیہ السلام سے کر رکھا تھا۔

اس واقعہ کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ والدین کا اکلوتا بیٹا مارا جائے، جبکہ باطنی پہلو والدین کے حق میں ہے۔

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۵﴾

۷۵۔ اس نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے؟

قَالَ اِنۡ سَاَلۡتُکَ عَنۡ شَیۡءٍۭ بَعۡدَہَا فَلَا تُصٰحِبۡنِیۡ ۚ قَدۡ بَلَغۡتَ مِنۡ لَّدُنِّیۡ عُذۡرًا﴿۷۶﴾

۷۶۔موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی بات پر سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں میری طرف سے آپ یقینا عذر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا﴿۷۷﴾

۷۷۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔

77۔ سلسلہ تعلیم کا تیسرا سبق شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ درس کی نوعیت اور اس کے مضمون میں تبدیلی آ گئی۔ پہلے سبق میں وہ مضامین پڑھائے گئے جو بظاہر نا انصافی اور زیادتی دکھائی دیتے ہیں، جبکہ اس مرتبہ وہ مضمون پڑھایا جا رہا ہے جس میں ایک ایسا عمل ہے، جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ گاؤں والے کنجوس ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوئی ایسا عمل انجام دیا جائے جس سے بھوک کا علاج ہو جائے، ایک ایسا عمل شروع ہو گیا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتراض کا محرک جذبات نہیں، خواہش نفسی ہے اور حکمت عملی کے فقدان کا احساس ہے۔ بظاہر اس کام کی انجام دہی میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن باطن میں ایک صالح شخص نے اپنے یتیم بچوں کے لیے جو خزانہ محفوظ کر لیا تھا اسے بچانا مقصود تھا۔

قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ ۚ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاۡوِیۡلِ مَا لَمۡ تَسۡتَطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا﴿۷۸﴾

۷۸۔ انہوں نے کہا: (بس) یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

78۔ اس تحقیقی و تدریسی سفر کا جاری رکھنا اب ممکن نہیں ہے، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوسرے سبق کے دوران ہی سمجھ لیا تھا۔

لیکن جدائی سے پہلے ان واقعات سے پردہ اٹھاؤں جن پر تجھے اور ہر چشم ظاہر بین کو اعتراض تھا اور ان میں مضمر ان رازوں کا انکشاف کروں جو نظام حیات کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔

اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا﴿۷۹﴾

۷۹۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کو جبراً چھین لیتا تھا۔

وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾

۸۰۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھا کہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔