اصحاب کہف کی کہانی


اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا﴿۹﴾

۹۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کتبے والے ہماری قابل تعجب نشانیوں میں سے تھے؟

9۔ اصحاب کہف کو چند سو سال سلائے رکھنا اللہ کی عظیم نشانیوں میں کوئی انوکھی بات نہیں، نہ ہی قدرت خدا کے لیے یہ کوئی مشکل کام ہے۔ کہف وسیع غار کے معنوں میں ہے او رقیم بمعنی مرقوم ہے۔ جیسے قتیل بمعنی مقتول آتا ہے۔ اس سے مراد وہ لوح ہے جس پر اصحاب کہف کے نام و نسب اور مختصر واقعہ درج تھا۔ اس لیے انہیں اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ کہا گیا۔

اِذۡ اَوَی الۡفِتۡیَۃُ اِلَی الۡکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً وَّ ہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عنایت فرما اور ہمیں ہمارے اقدام میں کامیابی عطا فرما۔

فَضَرَبۡنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمۡ فِی الۡکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ پھر کئی سالوں تک غار میں ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔

ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ ان دو جماعتوں میں سے کون ان کی مدت قیام کا بہتر شمار کرتی ہے۔

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

۱۳۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔

13۔ اس واقعہ کی متعدد روایات ہیں۔ سب سے قدیم روایت سریانی روایت ہے کہ جو تقریباً 474ء میں اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد ایک شامی پادری نے زبانی روایت کی بنیاد پر لکھی۔ بعد کی یونانی اور لاطینی روایتوں کا بھی ماخذ یہی سریانی روایت رہی ہے اور اسلامی مورخین کی روایت سریانی سے مختلف نہیں ہے۔ سریانی روایت کا خلاصہ یہ ہے :

رومی حکمران دقیانوس یا تھیوڈوسیس متوفی 251ء کے دور میں بت پرستی کا مذہب رائج تھا۔ وہ مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت ظلم و ستم روا رکھتا تھا۔ سات جوانوں نے اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت کی اور راستے میں ایک کتا ان کے ساتھ ہو لیا۔ ان کی کوشش کے باوجود وہ کتا ان سے الگ نہ ہوا۔ جس شہر سے یہ ہجرت واقع ہوئی، وہ اکثر مورخین کے بقول شہر افسوس یا افسس یا اِفسس تھا جو موجودہ ترکی کے شہر ازمیر سے 20 میل کے فاصلے پر موجود تھا۔ یہ شہر ایشیائے کوچک میں بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہ ایک بڑے گہرے غار میں چھپ گئے اور کتا اس غار کے دہانے پر بیٹھ گیا۔ پیدل سفر کی وجہ سے تھک گئے تھے، فورا سو گئے۔ یہ واقعہ تقریباً 251 عیسوی کو پیش آیا اور قیصر تھیوڈوسیس کے عہد 447ء میں بیدار ہوئے۔ اس طرح اصحاب کہف کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔

جب وہ قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے تو اس وقت رومی سلطنت مسیحیت اختیار کر چکی تھی۔ بیدار ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھا ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ کسی نے کہا دن بھر۔ کسی نے کہا دن کا کچھ حصہ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کے چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا۔ جب وہ شہر پہنچا تو حیرت زدہ ہو گیا کہ ہر چیز بدلی ہوئی ہے، سب لوگ مسیحی ہو گئے ہیں اور بت پرستی کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ایک دوکان سے روٹی خریدی، دکاندار کو چاندی کا ایک سکہ دیا جس پر قیصر تھیوڈوسیس کی تصویر تھی تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ دفینہ کہاں ہے جہاں سے تم یہ سکہ لائے ہو؟ کیونکہ قیصر تھیوڈوسیس کو مرے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا اور کہا کل ہی تو میں اور میرے ساتھی اس شہر سے بھاگے تھے اور غار میں پناہ لی تھی کہ دقیانوس (تھیوڈوسیس) کے ظلم سے بچے رہیں۔ اس کی باتیں سن کر لوگ اس غار تک پہنچ گئے اور خود بادشاہ بھی ان سے ملا۔

وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔

ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ ہماری اس قوم نے تو اللہ کے سوا اور وں کو معبود بنایا ہے، یہ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لائے؟ پس اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے والوں سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے؟

وَ اِذِ اعۡتَزَلۡتُمُوۡہُمۡ وَمَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ یَنۡشُرۡ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیُہَیِّیٴۡ لَکُمۡ مِّنۡ اَمۡرِکُمۡ مِّرۡفَقًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جب تم نے مشرکین اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملات میں تمہارے لیے آسانی فراہم کرے گا۔

وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا﴿٪۱۷﴾

۱۷۔ اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ غار کی کشادہ جگہ میں ہیں،ـ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے آپ سرپرست و رہنما نہ پائیں گے۔

17۔ اس غار کا محل وقوع بیان ہو رہا ہے کہ سورج سے کس جانب واقع تھا۔ فرمایا : وہ اس غار کے تنگ دھانے پر نہیں کشادہ جگہ پر موجود تھے اور دھوپ کی ان تک رسائی نہیں ہوتی تھی یا اس لیے کہ غار کا رخ شمال کی جانب تھا اور کسی موسم میں بھی غار کے اندر دھوپ نہیں پہنچتی تھی یا اس لیے کہ اصحاب کہف غار کے دہانے سے اندر کی طرف کشادہ جگہ پر تھے اور سورج کی کرنیں ان تک نہیں پہنچ پاتی تھیں، اگرچہ غار کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ آیت میں ان دونوں باتوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ اگر غار میں داخل ہونے کے اعتبار سے دائیں اور بائیں کہا جا رہا ہے تو غار کا رخ شمال کی طرف ہو گا اور اگر خارج ہونے کے اعتبار سے ہے تو غار کا رخ جنوب کی طرف ہو گا۔

وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ لَوَلَّیۡتَ مِنۡہُمۡ فِرَارًا وَّ لَمُلِئۡتَ مِنۡہُمۡ رُعۡبًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں تو ان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔

18۔ ان کو کروٹ بدلتے دیکھ کر یہ خیال گزرنا قرین قیاس ہے کہ یہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ محو خواب ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوں، دیکھنے والے یہ خیال کریں کہ یہ لوگ بیدار بھی ہیں اور بیداروں کی سی حرکتیں بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایک خوفناک تصور ذہن میں آئے گا اور انسان وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی سلامتی تصور کرے گا۔ واضح رہے کہ بہت سے مقامات پر قرآن کا یہ طرز خطاب رہا ہے کہ ایک مطلب کو عام لوگوں کے لیے بیان کیا جاتا ہے لیکن خطاب اپنے رسول ﷺ سے کیا جاتا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے پوچھا: تم لوگ یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ایک دن یا اس سے بھی کم، انہوں نے کہا : تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو پس تم اپنے میں سے ایک کو اپنے اس سکے کے ساتھ شہر بھیجو اور وہ دیکھے کہ کون سا کھانا سب سے ستھرا ہے پھر وہاں سے کچھ کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ ہوشیاری سے جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

19۔ وہ کفر کی طاقت سے مایوس ہو کر بھاگ گئے تھے اور دل میں یہ حسرت لیے گھر بار چھوڑ دیا کہ وہ دن کب آئے گا کہ باطل مٹ چکا ہو گا اور بت پرستی ختم ہو گئی ہو گی اور توحید پرستی عام ہو گئی ہو۔ اللہ نے ان کو اتنی مدت سلا دیا کہ وہ دن دیکھ پائیں کہ باطل مٹ چکا ہے اور حق کا بول بالا ہے۔

اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا : صرف روحانی غذا کی پاکیزگی نہیں، بلکہ جسمانی غذا کی طہارت و پاکیزگی بھی اسی قدر اہمیت کی حامل ہے۔ درحقیقت باطنی طہارت و ظاہری طہارت میں گہرا ربط ہے۔ اسی طرح دعا کی قبولیت کے لیے بھی غذا کی پاکیزگی اور حلال ہونے کو بڑا دخل ہے۔

اِنَّہُمۡ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ یَرۡجُمُوۡکُمۡ اَوۡ یُعِیۡدُوۡکُمۡ فِیۡ مِلَّتِہِمۡ وَ لَنۡ تُفۡلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ کیونکہ اگر وہ تم پر غالب آ گئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں پلٹائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو تم ہرگز فلاح نہیں پاؤ گے۔

وَ کَذٰلِکَ اَعۡثَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ لِیَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ فَقَالُوا ابۡنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنۡیَانًا ؕ رَبُّہُمۡ اَعۡلَمُ بِہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان سے باخبر کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے) میں کوئی شبہ نہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ نے کہا: ان (کے غار) پر عمارت بنا دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے، جنہوں نے ان کے بارے میں غلبہ حاصل کیا وہ کہنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد بناتے ہیں۔

21۔ سریانی روایت میں آیا ہے کہ اس وقت مسیحیوں میں قیامت اور اخروی زندگی کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی تھی اور منکرین قیامت کے مقابلے میں مؤمنین کے دلائل کمزور تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کی بیداری کا واقعہ پیش آیا تو قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو ایک سند مل گئی اور حیات بعد الموت ان کے لیے ناقابل فہم مسئلہ نہ رہا۔

ممکن ہے یہ نزاع قیامت کے بارے میں ہو۔ جو لوگ اس واقعہ کو قیامت کی دلیل نہیں سمجھتے تھے ان کا یہ کہنا تھا کہ اس غار پر دیوار چن دینا چاہیے اور جو لوگ اس واقعہ کو دلیل آخرت سمجھتے تھے، ان کا یہ کہنا تھا کہ اس پر مسجد تعمیر کرنی چاہیے۔

سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں، چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے، یہ سب دیکھے بغیر اندازے لگا رہے ہیں اور کچھ کہیں گے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے، کہدیجئے: میرا رب ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ ان کے بارے میں سطحی گفتگو کے علاوہ کوئی بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت کریں۔

22۔ نزول قرآن کے وقت عیسائیوں میں اصحاب کہف کے بارے میں مختلف باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان میں سے کسی ایک پر کوئی سند نہیں ہوتی تھی، صرف ظن و تخمین پر مبنی باتیں تھیں۔ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں جن اقوال کا ذکر فرمایا، ان میں سے صرف آخری قول کی تردید نہ کرنے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہی تعداد صحیح ہے۔ تعداد اتنی اہم بات نہیں ہے، اس لیے حضور ﷺ کو حکم ہوا کہ نہ تو تعداد پر بحث کریں، نہ اس کے بارے میں کسی سے سوال کریں۔ اس سلسلے میں اہمیت کا حامل وہ سبق ہے جو اس واقعہ سے ملتا ہے۔

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،

23۔ اصل فعل و عمل کی نسبت بندے کی طرف بھی ہو سکتی ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے متعدد مقامات پر اعمال کو انسانوں کی طرف نسبت دی ہے۔ یہاں بات استقلال کی ہو رہی ہے کہ کسی عمل کو بطور استقلال اپنی طرف نسبت نہ دو۔ اس کائنات میں اذن و مشیت الٰہی کے بغیر کوئی پتا نہیں ہل سکتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اذن و مشیت الٰہی امور تکوینی سے متعلق ہیں، امور تشریعی سے نہیں۔

اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں اور کہدیجئے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔

24۔ دوسرے جملے میں فرمایا کہ اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ یہاں خطاب اگرچہ اپنے حبیب سے ہے، لیکن ان لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے جن کے لیے یہ قرآن دستور حیات ہے، {سر دلبران در حدیث دیگران}۔

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔

25۔ اصحاب کہف قیصر روم تھیوڈوسیس کے عہد سلطنت میں تقریباً 445ء میں بیدار ہوئے اور بقول بعضے یہ واقعہ قیصر دقیانوس کے عہد 249۔251 میں پیش آیا۔ اس طرح ان کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔ جبکہ قرآن یہ مدت 309 سال بتاتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ اصل تحقیق کے مطابق اصحاب کہف کا واقعہ قیصر روم طراجان کے عہد سلطنت 98۔117ء میں پیش آیا، نہ کہ قیصر دقیانوس 251ء کے عہد میں، جیسا کہ بعض مسیحی روایات میں آیا ہے اور نہ دقیانوس 305ء کے عہد میں جیسا کہ بعض دیگر مسلم و غیر مسلم روایات میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت 408ء سے 450ء تک رہی۔ لہذا اگر ہم 421 سے 309 منفی کریں تو طراجان کا عہد حکومت 112ء نکل آتا ہے۔ بعض مستشرقین سریانی روایت کو بنیاد بنا کر قرآنی روایت کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ سریانی روایت اصحاب کہف کی بیداری کے چالیس سال بعد لکھی گئی جو بیداری کے حالات کے بارے میں کسی قدر قابل اعتماد ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ہجرت کا واقعہ کب پیش آیا؟ اس کے بارے میں سریانی روایت بالکل قابل اعتماد نہیں ہے، کیونکہ واقعہ اس روایت سے صدیوں پہلے پیش آیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مدت بیان کرنے کا یہ قول لوگوں کے قول کا بیان ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول، کیونکہ بعد میں اللہ فرماتا ہے کہ ان سے کہ دیجیے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت سوئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ اللہ کا اپنا قول نہیں، لوگوں کے قول کا بیان ہے۔

قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ آپ کہدیجئے: ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے، وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے، اس کے سوا ان کا کوئی سرپرست نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے۔

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا﴿۲۷﴾

۲۷۔(اے رسول) آپ کے رب کی کتاب کے ذریعے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنا دیں کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پائیں گے۔

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔

28۔ شان نزول کے بارے میں منقول ہے کہ اشراف قریش کی طرف سے یہ دباؤ تھاکہ رسول ﷺ نادار و مسکین مؤمنین کو اپنی بارگاہ سے دور کر دیں۔ ممکن ہے کہ آیت نادار و مسکین مؤمنین کی دل جوئی کے لیے ہو یا ممکن ہے خود رسول اللہ ﷺ کی دل جوئی کے لیے ہو، کیونکہ آپ ﷺ کو قدرتاً یہ آرزو رہتی تھی کہ رؤسائے قریش اگر ایمان لے آتے تو رونق اسلام میں نمایاں اضافہ ہو جاتا۔

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی دادرسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین ٹھکانا ہے۔

29۔ حق کے واضح ہونے اور حجت پوری ہونے کے بعد ایمان اور کفر اختیار کرنا خود بندے کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا ﴿ۚ۳۰﴾

۳۰۔ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو ہم نیک اعمال بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔

اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ یَلۡبَسُوۡنَ ثِیَابًا خُضۡرًا مِّنۡ سُنۡدُسٍ وَّ اِسۡتَبۡرَقٍ مُّتَّکِئِیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ؕ نِعۡمَ الثَّوَابُ ؕ وَ حَسُنَتۡ مُرۡتَفَقًا﴿٪۳۱﴾

۳۱۔ ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ سونے کے کنگنوں سے مزین ہوں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑوں میں ملبوس مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، بہترین ثواب ہے اور خوبصورت منزل۔

30۔ 31 سونے کے کنگن، حجلہ ابریشم، اطلس کے لباس، یہ سب جنت کی شاہانہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم آخرت، عالم دنیا سے مختلف ہے۔ وہاں کا طرز زندگی اللہ تعالیٰ ہمارے محسوسات کی روشنی میں سمجھاتا ہے، ورنہ عالم آخرت کے حقائق اس عالم ناسوت والوں کے لیے قابل فہم و ادراک نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ ان دو آیات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ثواب ان کے لیے ہے جن کے پاس ایمان کے ساتھ عمل صالح ہے۔ اس لیے فرمایا: ہم نیک عمل بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ اس سے واضح ہوا ہے کہ اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح نہ ہو تو اس کا کوئی اجر ہی نہیں ہوتا کہ ضائع کا سوال پیدا ہو جائے، بلکہ اس پر ایمان ہی صادق نہیں آتا۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔

32۔ آیت میں ایک نادار اور ایک سرمایہ دار میں مکالمے کی مثال پیش کی گئی ہے۔ سرمایہ دار کا طرز تفکر یہ ہے: ٭وہ مال و اولاد کی فراوانی کو ہی انسان کی منزل مقصود قرار دیتا ہے اور وہ صرف مادی اقدار کو جانتا ہے: اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ۔ ٭دولت میں مدہوش انسان عاقبت کی فکر نہیں کرتا۔ وہ اپنی خوشحالی کو دائمی تصور کرتا ہے: مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ۔ ٭مراعات کا عادی انسان خود کو آخرت کی تمام مراعات کا بھی حقدار سمجھتا ہے: لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ۔

جبکہ مومن کا مؤقف یہ ہے: ٭ایمان انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ خالق کی معرفت حاصل کرنے والا ہی عالی قدروں کا مالک ہے:

اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ۔

٭مال و دولت میسر آنے کی صورت میں مؤمن ناز و غرور کی جگہ اس کو اللہ کی عطا کردہ نعمت تصور کرتا ہے: مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔ ٭مومن مال و اولاد کی قلت پر شاکر رہتا ہے اور اللہ کی رحمتوں کی امید رکھتا ہے: فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ ۔ ٭مومن اس مال و دولت کی نا پائیداری پر نگاہ رکھتا ہے اور عاقبت اندیش ہوتا ہے: وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا ۔ آخر میں مؤمن کو اس ناعاقبت اندیش سرمایہ دار کی ندامت اور برے انجام کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے: وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا ۔

کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ دونوں باغوں نے خوب پھل دیا اور ذرا بھی کمی نہ کی اور ان کے درمیان ہم نے نہر جاری کی۔

وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور اسے پھل ملتا رہتا تھا، پس باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا: میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی قوت میں بھی زیادہ معزز ہوں۔

34۔ یہ ملحد اپنے مومن رفیق سے کہتا ہے کہ اگر میں برحق نہ ہوتا تو میں مال و اولاد کی فراوانی میں تجھ سے بہتر نہ ہوتا۔ تقریباً تمام دنیاداروں کا طرز فکر یہی ہے کہ مال و دولت کی قدر و قیمت ایمان و تقویٰ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔

وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔

وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کے حضور پلٹا دیا گیا تو میں ضرور اس سے بھی اچھی جگہ پاؤں گا۔

36۔ مراعات کا عادی انسان جس طرح دنیا میں تمام مراعات کو اپنا حق تصور کرتا ہے اسی طرح آخرت کی مراعات کو بھی اپنا حق تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اگرچہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اگر کوئی قیامت ہے تو میرا حال وہاں اس دنیا سے بھی بہتر ہو گا۔

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىکَ رَجُلًا ﴿ؕ۳۷﴾

۳۷۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے ساتھی نے کہا : کیا تو اس اللہ کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھے ایک معتدل مرد بنایا؟

37۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جاگیردار عقیدۃً مشرک، منکر قیامت اور منکر خدا تھا؟ یا وہ عقیدۃً ایسا نہ تھا بلکہ وہ دولت میں بدمست ہونے کی وجہ سے اس قسم کے کردار کا مالک تھا جو ایک منکر خدا اور منکر قیامت اختیار کرتا ہے۔ دوسری صورت کے لیے دو قرینے موجود ہیں: اول یہ کہ یہ شخص قیامت کے امکان کا اظہار کرتا ہے۔ دوم یہ کہ یہ شخص وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ میں رَبِّیۡ کا فقرہ استعمال کرتا ہے۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ عقیدۃً منکر خدا نہیں تھا بلکہ وہ عملًا اس مالک حقیقی کو نہیں اپنے آپ کو مالک سمجھتا تھا اور اس دولت کو عنایت الہی نہیں اپنے ہنر اور مہارت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

لٰکِنَّا۠ ہُوَ اللّٰہُ رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ لیکن میرا رب تو اللہ ہی ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

38۔ اس سرمایہ دار کے مقابلے میں مومن اپنا مؤقف بیان کرتا ہے کہ مومن اللہ ہی کو اپنا رب اور مالک مانتا ہے یعنی عقیدۃً و عملًا اللہ کو ہی مالک سمجھتا ہے اور مال و دولت کو اپنی مہارت کا مرہون نہیں مانتا۔

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ۚ۳۹﴾

۳۹۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے) اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر سمجھتا ہے،

فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا ﴿ۙ۴۰﴾

۴۰۔تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عنایت فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے اور وہ صاف میدان بن جائے۔

اَوۡ یُصۡبِحَ مَآؤُہَا غَوۡرًا فَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا﴿۴۱﴾

۴۱۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے پھر تو اسے طلب بھی نہ کر سکے۔

وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا وَ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُشۡرِکۡ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ چنانچہ اس کے پھلوں کو (آفت نے) گھیر لیا پس وہ اپنے باغ کو اپنی چھتوں پر گرا پڑا دیکھ کر اس سرمائے پر کف افسوس ملتا رہ گیا جو اس نے اس باغ پر لگایا تھا اور کہنے لگا: اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ۔

وَ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مُنۡتَصِرًا ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔اور ـ(ہوا بھی یہی ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکا۔

39 تا 43۔ دولت کے بارے میں مومن اپنا مؤقف بیان کرتا ہے۔ مال دولت کے حصول میں انسان کو استقلال حاصل نہیں ہے، اس میں مشیت الہی کو بھی دخل ہے۔ مال دولت کا جب مشاہدہ ہو گا تو یہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے: مَا شَآءَ اللّٰہُ ۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور طاقت و قوت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے: لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔

جاگیر دار کی سرمایہ دارانہ مادی سوچ کے مقابلے میں مومن اپنا مؤقف نہایت مہذب اور منطقی انداز میں پیش کرتا ہے۔ جاگیردار نے فخریہ اور غیر مہذب انداز میں کہا تھا کہ میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی طاقت میں تم سے برتر ہوں۔ مومن نے جواب میں کہا: تجھے ایک نا پائیدار جاگیر پر ناز ہے، جبکہ مجھے اس جاگیر پر ناز ہے جو میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔ گو کہ تمہاری قدروں کے مطابق میں مال و اولاد میں تم سے کمتر ضرور ہوں لیکن الٰہی قدروں کے مطابق جس جاگیر کا میں مالک بننے والا ہوں وہ تیری نا پائیدار جاگیر سے بہتر ہے۔ تیری جاگیر آسمانی اور زمین آفت کی زد میں ہے۔ ہو سکتا ہے آسمان سے تیری جاگیر پر آفت آگرے اور زمین خشک ہو جائے۔ چنانچہ اس کے باغ کی نا پائیداری کا وقت آ گیا اور اس کا باغ تباہ ہو گیا۔ اس کے دماغ سے دولت و جاگیر کا غرور اتر گیا تو حقائق کا فہم شروع ہو گیا اور کہنے لگا: کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا اور اس دولت پر تکیہ کرنے کی جگہ اپنے رب پر تکیہ کرتا۔

ہُنَالِکَ الۡوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الۡحَقِّ ؕ ہُوَ خَیۡرٌ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ عُقۡبًا﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ یہاں سے عیاں ہوا کہ اقتدار تو خدائے برحق کے لیے مختص ہے، اس کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا انجام اچھا ہے۔

44۔ یہاں سے یعنی اس واقعہ یا مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کل کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ کے پاس ہے۔ لِلّٰہِ الۡحَقِّ سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ ایک امر واقع اور حق و حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے مقابلے میں آنے والی ہر چیز ایک سراب اور دھوکہ ہے۔ اگر کسی کو مال و دولت مل گئی ہے تو اس دولت کے حصول کے لیے درمیان آنے والے علل و اسباب سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ ان علل و اسباب میں اللہ نے خاصیت ودیعت فرمائی ہے۔ اس طرح ہر زرّے پر اللہ کی ولایت اور حاکمیت قائم ہے۔ اگر ان علل و اسباب سے ان کی خاصیتیں سلب ہو جائیں تو کوئی طاقت نہیں جو ان کو یہ سلب شدہ خاصیت واپس دلا دے۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ ہَشِیۡمًا تَذۡرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقۡتَدِرًا﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ان کے لیے دنیاوی زندگی کی یہ مثال پیش کریں: یہ زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی روئیدگی گھنی ہو گئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئی، ہوائیں اسے اڑاتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور امید کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں۔

46۔ اگر انسان مال و دولت کو ایک مقدس مقصد کے لیے ذریعہ نہ بنائے اور خود اسی کو مقصد قرار دے تو یہ صرف چند روزہ دنیوی زندگی کے لیے ایک عارضی زیب و زینت ہے، جبکہ نیکیاں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔

شیعہ و سنی مآخذ میں کثرت سے یہ روایت ملتی ہے کہ باقیات صالحات سے مراد تسبیحات اربعہ سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ہیں۔ بعض دیگر روایات کے مطابق اس سے مراد نماز ہے۔ در حقیقت ان روایات میں باقیات صالحات کے اہم مصادیق کا ذکر ہے۔

وَ یَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ بَارِزَۃً ۙ وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿ۚ۴۷﴾

۴۷۔ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو آپ صاف میدان دیکھیں گے اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

وَ عُرِضُوۡا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا ؕ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍۭ ۫ بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَلَّنۡ نَّجۡعَلَ لَکُمۡ مَّوۡعِدًا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور وہ صف در صف تیرے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے (تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا) تم اسی طرح ہمارے پاس آ گئے ہو جیسا کہ ہم نے پہلی بار تمہیں خلق کیا تھا، بلکہ تمہیں تو گمان تھا کہ ہم نے تمہارے لیے وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے۔

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیا جائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

49۔ جو کچھ ان لوگوں نے کیا تھا وہ ان کو اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔ یعنی خود عمل کو حاضر پائیں گے۔ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ انسان کا عمل جب ایک بار وجود میں آتا ہے تو مٹتا نہیں ہے۔ ممکن ہے قیامت کے دن اسی عمل کو دکھایا جائے اور انسان کو اس حال میں دکھایا جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے رہا ہے، جس میں ہر چھوٹی اور بڑی حرکت نظر آئے گی اور ان کے جرائم کے عین مطابق سزا دی جائے گی۔ نہ اس کتاب کے مندرجات میں زیادتی ہو گی، نہ اس کے مطابق سزا دینے میں۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور (یہ بات بھی) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا، پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا، تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے۔

50۔ ابلیس جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان کی طرح اپنے ارادے میں خود مختار ہے۔ وہ نیکی بھی کر سکتا ہے اور برائی بھی۔ اسی لیے اس نے اطاعت الٰہی سے سرکشی کی۔

مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَا خَلۡقَ اَنۡفُسِہِمۡ ۪ وَ مَا کُنۡتُ مُتَّخِذَ الۡمُضِلِّیۡنَ عَضُدًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کرایا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق کا اور میں کسی گمراہ کرنے والے کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں ہوں۔

51۔ مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ میں ہُمۡ کی ضمیر اگر ابلیس اور اس کی اولاد کی طرف جاتی ہے تو آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: ہم نے ابلیس اور اس کی اولاد کو کائنات کی خلقت کے وقت حاضر نہیں کیا تھا کہ ابلیس کا بھی تدبیر کائنات میں کوئی حصہ ہو، کیونکہ جب تخلیق کا مشاہدہ نہیں ہے تو ابلیس اور اس کی اولاد کو اس بارے میں علم نہیں ہے اور جب علم نہیں ہے تو علم کے بغیر تدبیر کیسے کر سکتے ہیں۔ علم کے بغیر شفاعت بھی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں شفاعت کا ذکر کیا ہے، غالباً وہاں علم کا بھی ذکر آیا ہے۔

یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا اللہ کو کسی کو بازو بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اللہ کائنات کے نظام کے لیے ذرائع استعمال فرماتا ہے، احتیاج کی بنیاد پر نہیں حکمت کی بنیاد پر۔ حضرت علی علیہ السلام سے جب کہا گیا کہ آپ علیہ السلام کی حکومت کی مصلحت اس میں ہے کہ فی الحال معاویہ کو معزول نہ کیا جائے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں ظلم و جور کے ذریعے عدل قائم نہیں کروں گا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

ایک نہایت قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اکثر یہ مسئلہ ہماری دینی زندگی میں پیش آتا ہے کہ ہم ایک کار خیر کے لیے دانستہ یا نادانستہ طور پر گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ثواب کے حصول کی راہ میں گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ایک مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ یا مجلس قائم کرنے کے سلسلے میں کسی مومن کی غیبت یا کسی کی اہانت کرتے ہیں یا کسی کا حق مارتے ہیں، اس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ ہم اس کار خیر کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے نہیں کر رہے تھے، ورنہ اس کار خیر کے ذریعے اللہ کو ناراض نہ کرتے۔ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ ۔

وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ نَادُوۡا شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّوۡبِقًا﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور جس دن اللہ فرمائے گا: انہیں بلاؤ جنہیں تم نے میرا شریک ٹھہرایا تھا تو وہ انہیں بلائیں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔

وَ رَاَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ النَّارَ فَظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مُّوَاقِعُوۡہَا وَ لَمۡ یَجِدُوۡا عَنۡہَا مَصۡرِفًا﴿٪۵۳﴾

۵۳۔ اور مجرمین اس دن آتش جہنم کا مشاہدہ کریں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر مضمون کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو (ثابت ہوا ) ہے۔

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰی وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ سُنَّۃُ الۡاَوَّلِیۡنَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ قُبُلًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور جب ان کے پاس ہدایت آ گئی تھی تو ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی طلب کرنے سے لوگوں کو کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جائے جو ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا یا ان کے سامنے عذاب آ جائے۔

55۔ یہ لوگ سابقہ امتوں کی روش پر چلتے ہیں۔ یعنی عذاب آنے تک ایمان نہیں لاتے۔ جبکہ عذاب آنے کے بعد کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ اس طرح یہ لوگ ایسے ایمان کے لیے آمادہ ہیں جو ان کے لیے مفید نہیں ہے۔ اس قسم کا ایمان تو فرعون بھی غرق ہوتے وقت لایا تھا۔

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ مَاۤ اُنۡذِرُوۡا ہُزُوًا﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور تنبیہ کریں اور کفار باطل باتوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ اس طرح حق بات کو مسترد کر دیں، انہوں نے میری آیات کو اور ان باتوں کو جن کے ذریعے انہیں تنبیہ کی گئی تھی مذاق بنا لیا۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقینا پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں) اور اب اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔

57۔ وہ اپنے جرائم کی وجہ سے ایمان کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں جس کی بنا پر اللہ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ جن کو اللہ اپنی رحمت سے محروم کرے ان میں پھر شنوائی رہتی ہے نہ سمجھنے کے لیے ان کی عقل و فکر کام کرتی ہے۔

وَ رَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ لَوۡ یُؤَاخِذُہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَہُمُ الۡعَذَابَ ؕ بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور آپ کا رب بڑا بخشنے والا، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ ان کی حرکات پر انہیں گرفت میں لینا چاہتا تو انہیں جلد ہی عذاب دے دیتا لیکن ان کے لیے وعدے کا وقت مقرر ہے، وہ (اس سے بچنے کے لیے) اس کے سوا کوئی پناہ گاہ ہرگز نہیں پائیں گے۔

58۔یہ اللہ کی غفاریت اور رحمت ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا بلکہ باز آنے کے لیے انھیں مواقع فراہم کرتا ہے۔

وَ تِلۡکَ الۡقُرٰۤی اَہۡلَکۡنٰہُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَ جَعَلۡنَا لِمَہۡلِکِہِمۡ مَّوۡعِدًا﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ اور ان بستیوں کو ہم نے اس وقت ہلاکت میں ڈال دیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔

59۔ مجرموں کو مہلت دینا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تمام امتوں کے بارے میں خدا کی دائمی روش ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

60۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرئی اور ظاہری نظام کے پس پردہ ایک نامرئی اور باطنی نظام بھی موجود ہے۔ ظاہری اور مرئی نظام اس باطنی نظام کے تابع ہے۔ ظاہر بین لوگ جو صرف محسوسات پر ایمان رکھتے ہیں اس ظاہری نظام کی ناہمواری کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس نظام کے پیچھے کوئی شعور کام نہیں کر رہا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باطنی اور نامرئی نظام کی ایک جھلک دکھائی جائے۔

اسلامی روایت کے مطابق یہ واقعہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولوالعزم نبی کو اس باطنی نظام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس ظاہری دنیا میں پیش آنے والے حادثات کے پیچھے کون سی حکمتیں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کو معراج میں عالم ملکوت کی سیر کرائی تاکہ اللہ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کریں۔ یعنی ان راز ہائے قدرت سے آگاہی حاصل کریں جو اس عالم ناسوت کے پردے کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اس پر کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ ممکن ہے مدین میں زندگی کے دوران پیش آیا ہواور ممکن ہے کہ مصر میں پیش آیا ہو۔

فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا﴿۶۱﴾

۶۱۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا ۔

61۔ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ : دونوں دریاؤں کے سنگم۔ بعض کے نزدیک بحر ازرق اور بحر ابیض، جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں آپس میں ملتی ہیں، وہ مقام مراد ہے جو موجودہ شہر خرطوم کے نزدیک ہے اور بعض کے نزدیک یہ خلیج فارس اور بحر روم کا سنگم ہے۔ لیکن یہ سب باتیں ظن و گمان اور اندازے کے سوا کچھ نہیں۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا﴿۶۲﴾

۶۲۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔

قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ جوان نے کہا: بھلا مجھے بتاؤ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے سمندر میں اپنی راہ بنائی ۔

63۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بتایا گیا تھاکہ وہ معلم دو دریاؤں کے سنگم پر ملیں گے، جہاں سے مچھلی دریا میں چلی جائے گی۔ اس بات کی تفسیر کہیں نہیں ملتی کہ وہ جوان اس حیرت انگیز واقعے کو کیسے بھول گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آتے ہیں اور اسی سنگم پر وہ بندہ ٔخدا سے ملتے ہیں۔

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

65۔ جس عبد خدا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تعلیم حاصل کرنا تھی، وہ اسلامی روایات کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاصر نبی تھے۔ بعض روایات کے مطابق آپ ابھی تک زندہ ہیں۔

اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا :جسے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔رحمت سے مراد قرآنی اصطلاح میں نبوت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا: وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ ۔ (ہود : 28)

قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟

66۔ تعلیم کے ذکر سے پہلے اتباع کا ذکر بتلاتا ہے کہ شاگرد کے لیے استاد کی اتباع اور پیروی کرنا بنیادی بات ہے اور ساتھ شاگردی کے آداب میں اتباع کو اولیت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے اتباع کا ذکر پہلے اور تعلیم کا ذکر بعد میں آگیا۔

قَالَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

وَ کَیۡفَ تَصۡبِرُ عَلٰی مَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ خُبۡرًا﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے؟

68۔ انجام کا علم نہ ہو تو صبر نہیں آتا۔ لہٰذا صبر کا علم سے گہرا ربط ہے۔ اگر شفا کے حصول کا علم نہ ہو تو معالجے کی تلخی قابل تحمل نہیں ہوتی۔ حدیث میں آیا ہے: وَ مَنْ عَرَفَ قَدْرَ الصَّبْرِ لَا یَصْبِرُ عَمَّا مِنْہُ الصَّبْرُ ۔ (مستدرک الوسائل 2: 427) اگر صبر کی قدر و قیمت کا علم ہو جائے تو جس سے صبر کرنا ہوتا ہے، اس پر صبر نہ کرنے پر صبر نہ آتا۔

قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا﴿۶۹﴾

۶۹۔ موسیٰ نے کہا: ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

69۔ یہ ایک عزم و ارادے کا اظہار ہے اور حالات کا سامنا کرنے سے پہلے یہ اظہار اپنی جگہ سچا ہے۔ یہ عہد و پیمان حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس اعتبار سے دیا ہے کہ اللہ کے حکم سے جس استاد سے علم حاصل کرنا ہے، وہ یقینا خلاف شرع کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ بعد میں جب خلاف ورزی سرزد ہوئی، اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے عہد کی خلاف ورزی تصور نہیں کرتے تھے، جبکہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کی خلاف ورزی پر برہم تھے۔ بادی الرائے میں اس برہمی کو خلاف ورزی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے توجہ دلانے پر انہوں نے معذرت کی۔

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعۡتَنِیۡ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِیۡ عَنۡ شَیۡءٍ حَتّٰۤی اُحۡدِثَ لَکَ مِنۡہُ ذِکۡرًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اس نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلنا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت تک کوئی بات مجھ سے نہیں پوچھیں گے جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ سے ذکر نہ کروں۔

70۔ یعنی کوئی بھی حادثہ یا مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کے انجام کا انتظار کرنا ہو گا۔ اگر اس حادثہ اور مسئلہ کی کوئی توجیہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو لب اعتراض نہ کھولنا۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے

71۔ اس سلسلہ تعلیم کا پہلا سبق شروع ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام سے ایسا عمل سرزد ہوتا ہے جو عقل و ضمیر کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اس واقعے کی ظاہری صورت یہ ہے کہ یہ کشتی چند مسکینوں کا واحد ذریعۂ معاش تھی اور وہ بھی حادثے کی نذر ہو گئی۔ ظاہر بین نگاہوں کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ ان مسکینوں کا ذریعۂ معاش بھی چھن جائے، جبکہ اس واقعہ کا باطنی پہلو یہ ہے کہ اس حادثے کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش بچ جاتا ہے۔

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۲﴾

۷۲۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟

قَالَ لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ وَ لَا تُرۡہِقۡنِیۡ مِنۡ اَمۡرِیۡ عُسۡرًا﴿۷۳﴾

۷۳۔موسیٰ نے کہا: مجھ سے جو بھول ہوئی ہے اس پر آپ میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے اس معاملے میں مجھے سختی میں نہ ڈالیں۔

73۔ یہاں بھول بقول بعض مفسرین ترک کے معنوں میں ہے۔ یعنی میں نے جو عہد آپ کے ساتھ کیا تھا اس پر عمل کرنا ترک ہوا، اس پر معذرت چاہتا ہوں۔ یہ نامناسب اور غیر ضروری عمل سرزد ہوتے دیکھ کر بادی النظر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ردعمل ظاہر ہونا اور برہم ہونا فطری ہے۔