شاگرد کی علمی الجھن کا برمحل حل


قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ ۚ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاۡوِیۡلِ مَا لَمۡ تَسۡتَطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا﴿۷۸﴾

۷۸۔ انہوں نے کہا: (بس) یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

78۔ اس تحقیقی و تدریسی سفر کا جاری رکھنا اب ممکن نہیں ہے، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوسرے سبق کے دوران ہی سمجھ لیا تھا۔

لیکن جدائی سے پہلے ان واقعات سے پردہ اٹھاؤں جن پر تجھے اور ہر چشم ظاہر بین کو اعتراض تھا اور ان میں مضمر ان رازوں کا انکشاف کروں جو نظام حیات کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔

اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا﴿۷۹﴾

۷۹۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کو جبراً چھین لیتا تھا۔

وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾

۸۰۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھا کہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔

وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا ﴿ؕ٪۸۲﴾

۸۲۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

82۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر چشم ظاہر بین کو صبر نہیں آتا۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کشتی میں سوراخ کرنا اور لڑکے کو قتل کرنا حضرت خضر علیہ السلام کا عمل نہ ہو بلکہ اللہ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے واقعات کو تمثیلی طور پر پیش کیا گیا ہو اور ان حقائق کو حضرت خضر علیہ السلام کے عمل کی صورت میں دکھایا گیا ہو جو کہ در حقیقت اللہ کی طرف سے تھا۔

تاویل کے بارے میں مقدمہ میں بھی بحث ہو گئی ہے کہ ہر واقعہ اور فعل کی تاویل وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر فعل کی مصلحت اور اس کی افادیت کا انحصار ہے۔ وہی اس کا محرک اور جواز بنتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح نظام کائنات کے پوشیدہ رازوں کا مطالعہ کرانا مقصود ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو جس مرتبہ کا ملکوتی مطالعہ کرایا، موسیٰ علیہ السلام کو اس سے کم تر درجے کا مطالعہ کرایا۔ چنانچہ اس درس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سیکھا کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے وہ واقعات جن کی ہم کوئی مثبت توجیہ نہیں کر سکتے، ان کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہے جو اس کائنات کے بہتر نظام کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ یہ ہمارے روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کا اکلوتا بچہ مر جاتا ہے۔کسی غریب مسکین کی جمع پونجی ضائع ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔ ایک ظالم کے پاس طاقت اور ایک مظلوم کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ اور اس کی توجیہ اور مصلحت عام لوگوں کی فہم سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے اس قسم کے حالات اور حادثات کے پیچھے جو اسرار و رموز پوشیدہ ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو آگاہ فرماتا ہے۔