فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔

وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا ﴿ؕ٪۸۲﴾

۸۲۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

82۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر چشم ظاہر بین کو صبر نہیں آتا۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کشتی میں سوراخ کرنا اور لڑکے کو قتل کرنا حضرت خضر علیہ السلام کا عمل نہ ہو بلکہ اللہ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے واقعات کو تمثیلی طور پر پیش کیا گیا ہو اور ان حقائق کو حضرت خضر علیہ السلام کے عمل کی صورت میں دکھایا گیا ہو جو کہ در حقیقت اللہ کی طرف سے تھا۔

تاویل کے بارے میں مقدمہ میں بھی بحث ہو گئی ہے کہ ہر واقعہ اور فعل کی تاویل وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر فعل کی مصلحت اور اس کی افادیت کا انحصار ہے۔ وہی اس کا محرک اور جواز بنتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح نظام کائنات کے پوشیدہ رازوں کا مطالعہ کرانا مقصود ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت خاتم الانبیاء صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جس مرتبہ کا ملکوتی مطالعہ کرایا، موسیٰ علیہ السلام کو اس سے کم تر درجے کا مطالعہ کرایا۔ چنانچہ اس درس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سیکھا کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے وہ واقعات جن کی ہم کوئی مثبت توجیہ نہیں کر سکتے، ان کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہے جو اس کائنات کے بہتر نظام کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ یہ ہمارے روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کا اکلوتا بچہ مر جاتا ہے۔کسی غریب مسکین کی جمع پونجی ضائع ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔ ایک ظالم کے پاس طاقت اور ایک مظلوم کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ اور اس کی توجیہ اور مصلحت عام لوگوں کی فہم سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے اس قسم کے حالات اور حادثات کے پیچھے جو اسرار و رموز پوشیدہ ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو آگاہ فرماتا ہے۔

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾

۸۳۔ اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: جلد ہی اس کا کچھ ذکر تمہیں سناؤں گا۔

83۔ ذوالقرنین، دو سینگوں والا کی وجہ تسمیہ میں یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ خسرو نے سیڈیا اور فارس دونوں بادشاہتوں کو فتح کر لیا، اس لیے دو سینگوں والا لقب ہو گیا اور سینگ اس زمانے میں طاقت کی نشانی ہو سکتی ہے۔ المیزان کے مطابق خسرو کا مجسمہ ماضی قریب میں مرغاب جنوب ایران میں دریافت ہوا، اس میں اس کے تاج میں دو سینگ بھی ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ اس بادشاہ کو ذوالقرنین کیوں کہا گیا۔

یہودیوں کے ہاں جس عالمی فرماں روا کو ذوالقرنین کے نام سے شہرت حاصل تھی وہ ایران کے فرماں روا خسرو یا سائرس ہی ہو سکتے ہیں، کیونکہ جب 539 ق م خسرو نے بابل فتح کیا تو اس نے بابل میں اسیر یہودیوں کو اپنے ملک واپس جانے کی اجازت دے دی، جس کی وجہ سے یہودی دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہوئے اور اسی خسرو نے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی جو یہودیوں کی تاریخ میں اہم ترین واقعہ ہے۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ ذوالقرنین سے مراد خسرو ہی ہے۔

مشہور یہ ہے کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر اعظم مقدونی متوفی 323 ق م ہے، جو قرآن کے سیاق کلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ سکندر اعظم موحد نہ تھا، نہ ہی اس نے کوئی بند باندھا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ذوالقرنین سے مراد ایرانی بادشاہ کورش کبیر متوفی 539 ق م ہے۔ بعض محققین کے مطابق یہی قرین قیاس ہے۔

اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۴﴾

۸۴۔ بے شک ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا اور ہم نے ہر شے کے (مطلوبہ) وسائل بھی اسے فراہم کیے۔

فَاَتۡبَعَ سَبَبًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ چنانچہ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا﴿۸۶﴾

۸۶۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتے دیکھا اور اس کے پاس اس نے ایک قوم کو پایا، ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (تمہیں اختیار ہے)۔

86۔ جب آفتاب غروب ہو رہا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سیاہ گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ بعض اہل قلم کے مطابق ذوالقرنین کے کورش ہونے کی صورت میں اس پانی سے مراد ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو سکتا ہے اور سکندر اعظم ہونے کی صورت میں جنوبی یوگوسلاویہ کی بڑی جھیل ہو سکتی ہے، جس کا پانی گدلا اور سیاہی مائل ہے یا سواحل افریقہ ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ان میں سے کسی پر قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔

قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸۷﴾

۸۷۔ ذوالقرنین نے کہا: جو ظلم کا ارتکاب کرے گا عنقریب ہم اسے سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا تو وہ اسے برا عذاب دے گا۔

وَ اَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ سَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۸﴾

۸۸۔ لیکن جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے بہت اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملات میں اس سے نرمی کے ساتھ بات کریں گے ۔

ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا﴿۸۹﴾

۸۹۔ پھر وہ راہ پر ہو لیا ۔

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا ﴿ۙ۹۰﴾

۹۰۔ یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب سے بچنے کی کوئی آڑ نہیں رکھی۔

90۔ یعنی مشرق کی انتہائی سمت، جہاں تمدن کا سرے سے فقدان تھا، وہ مکان و لباس وغیرہ سے نا آشنا تھے۔ ایک گمان یہ ہے کہ یہ علاقہ بلخ کا ہو سکتا ہے جو کہ کورش کے دائرہ حکومت کی مشرق کی طرف آخری حد ہے۔