آیات 71 - 72
 

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۲﴾

۷۲۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟

تشریح کلمات

اِمۡرًا:

( ا م ر ) کے معنی منکر (برائی) کے ہیں۔

تفسیر آیات

اس سلسلہ تعلیم کا پہلا سبق شروع ہوتا ہے اور درس چونکہ نظری و فکری درس تو تھا نہیں کہ کلاس روم میں دیا جائے بلکہ یہ عملی درس تھا۔ اس لیے اس درس کو واقعیت کا میدان درکار اور زمینی حقائق سے سروکار تھا۔ اس لیے وہ تحقیقاتی و تدریسی دورے پر نکلتے ہیں۔ حضرت معلّم سے ایسا عمل سرزد ہوتا ہے جو عقل و ضمیر کے لیے قابل تحمل نہیں ہے۔ ایک طرف تو کسی کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچایا، دوسری طرف کشتی پر سوار لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا اور اس ارتکاب کے لیے کوئی جواز بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رہا نہیں گیا اور اسے نامناسب امر قرار دیا۔ چنانچہ حضرت معلّم کا عمل حضرت موسی علیہ السلام کی توقع کے خلاف تھا۔ جب کہ حضرت موسی علیہ السلام کا رد عمل حضرت معلّم کی توقع کے مطابق تھا۔


آیات 71 - 72