آیات 75 - 77
 

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۵﴾

۷۵۔ اس نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے؟

قَالَ اِنۡ سَاَلۡتُکَ عَنۡ شَیۡءٍۭ بَعۡدَہَا فَلَا تُصٰحِبۡنِیۡ ۚ قَدۡ بَلَغۡتَ مِنۡ لَّدُنِّیۡ عُذۡرًا﴿۷۶﴾

۷۶۔موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی بات پر سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں میری طرف سے آپ یقینا عذر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا﴿۷۷﴾

۷۷۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔

تفسیر آیات

سلسلہ تعلیم کا تیسرا سبق شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ درس کی نوعیت اور مضمون میں تبدیلی آ گئی ہے۔ پہلے اسباق میں وہ مضامین پڑھائے گئے جو بظاہر ناانصافی اور زیادتی دکھائی دیتے ہیں جب کہ اس مرتبہ وہ مضمون پڑھایا جا رہا ہے جس میں ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا ہے۔

دونوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ گاؤں والے کنجوس ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوئی ایسا عمل انجام دیا جائے جس سے بھوک کا علاج ہو جائے ایک ایسا عمل شروع ہو گیا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں۔

اس مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اعتراض کا محرک جذبات نہیں، خواہش نفسی اور حکمت عملی کے فقدان کا احساس ہے۔


آیات 75 - 77