آیات 80 - 81
 

وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾

۸۰۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھا کہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔

تفسیر آیات

اس واقعہ کی ظاہری صورت ایک انسان کا بلا جرم و گناہ قتل ہے جو بہت بڑا جرم ہے لیکن اس قتل کے پیچھے جو حکمت کار فرما ہے وہ قصاص کی طرح حیات آفرین ہے۔

فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ: ہم نے اس بچے سے اس کی زندگی سلب کر کے ان کے والدین پر احسان کیا ہے کیونکہ اس کے والدین مؤمن تھے اور انہیں اپنے بچے کے شر بچایا۔ جیسا کہ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۔۔۔ (۶۴ تغابن: ۱۴)

اے ایمان والو! تمہاری ازواج اور تمہاری اولاد میں سے بعض یقینا تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو۔

اس کا یہ مفہوم ہو سکتا ہے کہ والدین کے مؤمن ہونے کی وجہ سے اس سرکش بچے کی جان لے لی ہے۔ اگر والدین مؤمن نہ ہوتے تو اس کی جان نہ لیتا۔

فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا: روایات میں آیا ہے کہ اس کے والدین کو اس بیٹے کی جگہ اللہ نے ایک بیٹی عنایت فرمائی جس سے جو بچہ پیدا ہوا وہ نبوت پر فائز ہوا ہے۔ اکثر روایات میں آیا ہے کہ اس بچی کی نسل سے ستر انبیاء پیدا ہوئے۔ (الفقیہ ۳: ۳۹۱ باب حال من یموت من اطفال المؤمنین )


آیات 80 - 81