درس سوئم: سلف صالح کی عملی قدردانی


فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا﴿۷۷﴾

۷۷۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔

77۔ سلسلہ تعلیم کا تیسرا سبق شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ درس کی نوعیت اور اس کے مضمون میں تبدیلی آ گئی۔ پہلے سبق میں وہ مضامین پڑھائے گئے جو بظاہر نا انصافی اور زیادتی دکھائی دیتے ہیں، جبکہ اس مرتبہ وہ مضمون پڑھایا جا رہا ہے جس میں ایک ایسا عمل ہے، جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ گاؤں والے کنجوس ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوئی ایسا عمل انجام دیا جائے جس سے بھوک کا علاج ہو جائے، ایک ایسا عمل شروع ہو گیا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتراض کا محرک جذبات نہیں، خواہش نفسی ہے اور حکمت عملی کے فقدان کا احساس ہے۔ بظاہر اس کام کی انجام دہی میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن باطن میں ایک صالح شخص نے اپنے یتیم بچوں کے لیے جو خزانہ محفوظ کر لیا تھا اسے بچانا مقصود تھا۔