موسیٰ و خضر کی کہانی


وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

60۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرئی اور ظاہری نظام کے پس پردہ ایک نامرئی اور باطنی نظام بھی موجود ہے۔ ظاہری اور مرئی نظام اس باطنی نظام کے تابع ہے۔ ظاہر بین لوگ جو صرف محسوسات پر ایمان رکھتے ہیں اس ظاہری نظام کی ناہمواری کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس نظام کے پیچھے کوئی شعور کام نہیں کر رہا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باطنی اور نامرئی نظام کی ایک جھلک دکھائی جائے۔

اسلامی روایت کے مطابق یہ واقعہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے اولوالعزم نبی کو اس باطنی نظام سے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس ظاہری دنیا میں پیش آنے والے حادثات کے پیچھے کون سی حکمتیں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کو معراج میں عالم ملکوت کی سیر کرائی تاکہ اللہ کی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کریں۔ یعنی ان راز ہائے قدرت سے آگاہی حاصل کریں جو اس عالم ناسوت کے پردے کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اس پر کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے۔ ممکن ہے مدین میں زندگی کے دوران پیش آیا ہواور ممکن ہے کہ مصر میں پیش آیا ہو۔

فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا﴿۶۱﴾

۶۱۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا ۔

61۔ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ : دونوں دریاؤں کے سنگم۔ بعض کے نزدیک بحر ازرق اور بحر ابیض، جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں آپس میں ملتی ہیں، وہ مقام مراد ہے جو موجودہ شہر خرطوم کے نزدیک ہے اور بعض کے نزدیک یہ خلیج فارس اور بحر روم کا سنگم ہے۔ لیکن یہ سب باتیں ظن و گمان اور اندازے کے سوا کچھ نہیں۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا﴿۶۲﴾

۶۲۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔

قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ جوان نے کہا: بھلا مجھے بتاؤ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے سمندر میں اپنی راہ بنائی ۔

63۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بتایا گیا تھاکہ وہ معلم دو دریاؤں کے سنگم پر ملیں گے، جہاں سے مچھلی دریا میں چلی جائے گی۔ اس بات کی تفسیر کہیں نہیں ملتی کہ وہ جوان اس حیرت انگیز واقعے کو کیسے بھول گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آتے ہیں اور اسی سنگم پر وہ بندہ ٔخدا سے ملتے ہیں۔

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

65۔ جس عبد خدا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تعلیم حاصل کرنا تھی، وہ اسلامی روایات کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاصر نبی تھے۔ بعض روایات کے مطابق آپ ابھی تک زندہ ہیں۔

اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا :جسے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔رحمت سے مراد قرآنی اصطلاح میں نبوت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا: وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ ۔ (ہود : 28)

قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟

66۔ تعلیم کے ذکر سے پہلے اتباع کا ذکر بتلاتا ہے کہ شاگرد کے لیے استاد کی اتباع اور پیروی کرنا بنیادی بات ہے اور ساتھ شاگردی کے آداب میں اتباع کو اولیت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے اتباع کا ذکر پہلے اور تعلیم کا ذکر بعد میں آگیا۔

قَالَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

وَ کَیۡفَ تَصۡبِرُ عَلٰی مَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ خُبۡرًا﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے؟

68۔ انجام کا علم نہ ہو تو صبر نہیں آتا۔ لہٰذا صبر کا علم سے گہرا ربط ہے۔ اگر شفا کے حصول کا علم نہ ہو تو معالجے کی تلخی قابل تحمل نہیں ہوتی۔ حدیث میں آیا ہے: وَ مَنْ عَرَفَ قَدْرَ الصَّبْرِ لَا یَصْبِرُ عَمَّا مِنْہُ الصَّبْرُ ۔ (مستدرک الوسائل 2: 427) اگر صبر کی قدر و قیمت کا علم ہو جائے تو جس سے صبر کرنا ہوتا ہے، اس پر صبر نہ کرنے پر صبر نہ آتا۔

قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا﴿۶۹﴾

۶۹۔ موسیٰ نے کہا: ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

69۔ یہ ایک عزم و ارادے کا اظہار ہے اور حالات کا سامنا کرنے سے پہلے یہ اظہار اپنی جگہ سچا ہے۔ یہ عہد و پیمان حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس اعتبار سے دیا ہے کہ اللہ کے حکم سے جس استاد سے علم حاصل کرنا ہے، وہ یقینا خلاف شرع کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ بعد میں جب خلاف ورزی سرزد ہوئی، اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے عہد کی خلاف ورزی تصور نہیں کرتے تھے، جبکہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کی خلاف ورزی پر برہم تھے۔ بادی الرائے میں اس برہمی کو خلاف ورزی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے توجہ دلانے پر انہوں نے معذرت کی۔

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعۡتَنِیۡ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِیۡ عَنۡ شَیۡءٍ حَتّٰۤی اُحۡدِثَ لَکَ مِنۡہُ ذِکۡرًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اس نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلنا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت تک کوئی بات مجھ سے نہیں پوچھیں گے جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ سے ذکر نہ کروں۔

70۔ یعنی کوئی بھی حادثہ یا مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کے انجام کا انتظار کرنا ہو گا۔ اگر اس حادثہ اور مسئلہ کی کوئی توجیہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو لب اعتراض نہ کھولنا۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے

71۔ اس سلسلہ تعلیم کا پہلا سبق شروع ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام سے ایسا عمل سرزد ہوتا ہے جو عقل و ضمیر کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اس واقعے کی ظاہری صورت یہ ہے کہ یہ کشتی چند مسکینوں کا واحد ذریعۂ معاش تھی اور وہ بھی حادثے کی نذر ہو گئی۔ ظاہر بین نگاہوں کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ ان مسکینوں کا ذریعۂ معاش بھی چھن جائے، جبکہ اس واقعہ کا باطنی پہلو یہ ہے کہ اس حادثے کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش بچ جاتا ہے۔

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۲﴾

۷۲۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟

قَالَ لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ وَ لَا تُرۡہِقۡنِیۡ مِنۡ اَمۡرِیۡ عُسۡرًا﴿۷۳﴾

۷۳۔موسیٰ نے کہا: مجھ سے جو بھول ہوئی ہے اس پر آپ میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے اس معاملے میں مجھے سختی میں نہ ڈالیں۔

73۔ یہاں بھول بقول بعض مفسرین ترک کے معنوں میں ہے۔ یعنی میں نے جو عہد آپ کے ساتھ کیا تھا اس پر عمل کرنا ترک ہوا، اس پر معذرت چاہتا ہوں۔ یہ نامناسب اور غیر ضروری عمل سرزد ہوتے دیکھ کر بادی النظر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ردعمل ظاہر ہونا اور برہم ہونا فطری ہے۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا﴿۷۴﴾

۷۴۔پھر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس نے لڑکے کو قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا : کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا؟ یہ تو آپ نے واقعی برا کام کیا۔

74۔ اس سلسلہ تعلیم کا دوسرا درس شروع ہوا۔ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ قابل سرزنش اور ناقابل تحمل جرم سرزد ہوتے ہوئے دیکھا۔ ایک بیگناہ پاکیزہ جان کا قتل۔ اس مرتبہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر نہ کر سکے۔ ان کا وجدان، ضمیر اور جذبہ اس عہد پر غالب آ گیا جو حضرت خضر علیہ السلام سے کر رکھا تھا۔

اس واقعہ کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ والدین کا اکلوتا بیٹا مارا جائے، جبکہ باطنی پہلو والدین کے حق میں ہے۔

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۷۵﴾

۷۵۔ اس نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے؟

قَالَ اِنۡ سَاَلۡتُکَ عَنۡ شَیۡءٍۭ بَعۡدَہَا فَلَا تُصٰحِبۡنِیۡ ۚ قَدۡ بَلَغۡتَ مِنۡ لَّدُنِّیۡ عُذۡرًا﴿۷۶﴾

۷۶۔موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی بات پر سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں میری طرف سے آپ یقینا عذر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَہۡلَ قَرۡیَۃِۣ اسۡتَطۡعَمَاۤ اَہۡلَہَا فَاَبَوۡا اَنۡ یُّضَیِّفُوۡہُمَا فَوَجَدَا فِیۡہَا جِدَارًا یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّنۡقَضَّ فَاَقَامَہٗ ؕ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَیۡہِ اَجۡرًا﴿۷۷﴾

۷۷۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔

77۔ سلسلہ تعلیم کا تیسرا سبق شروع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ درس کی نوعیت اور اس کے مضمون میں تبدیلی آ گئی۔ پہلے سبق میں وہ مضامین پڑھائے گئے جو بظاہر نا انصافی اور زیادتی دکھائی دیتے ہیں، جبکہ اس مرتبہ وہ مضمون پڑھایا جا رہا ہے جس میں ایک ایسا عمل ہے، جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ گاؤں والے کنجوس ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوئی ایسا عمل انجام دیا جائے جس سے بھوک کا علاج ہو جائے، ایک ایسا عمل شروع ہو گیا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتراض کا محرک جذبات نہیں، خواہش نفسی ہے اور حکمت عملی کے فقدان کا احساس ہے۔ بظاہر اس کام کی انجام دہی میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن باطن میں ایک صالح شخص نے اپنے یتیم بچوں کے لیے جو خزانہ محفوظ کر لیا تھا اسے بچانا مقصود تھا۔

قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنِکَ ۚ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاۡوِیۡلِ مَا لَمۡ تَسۡتَطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا﴿۷۸﴾

۷۸۔ انہوں نے کہا: (بس) یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

78۔ اس تحقیقی و تدریسی سفر کا جاری رکھنا اب ممکن نہیں ہے، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوسرے سبق کے دوران ہی سمجھ لیا تھا۔

لیکن جدائی سے پہلے ان واقعات سے پردہ اٹھاؤں جن پر تجھے اور ہر چشم ظاہر بین کو اعتراض تھا اور ان میں مضمر ان رازوں کا انکشاف کروں جو نظام حیات کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔

اَمَّا السَّفِیۡنَۃُ فَکَانَتۡ لِمَسٰکِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ فِی الۡبَحۡرِ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا وَ کَانَ وَرَآءَہُمۡ مَّلِکٌ یَّاۡخُذُ کُلَّ سَفِیۡنَۃٍ غَصۡبًا﴿۷۹﴾

۷۹۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کو جبراً چھین لیتا تھا۔

وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾

۸۰۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھا کہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا﴿۸۱﴾

۸۱۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔

وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا ﴿ؕ٪۸۲﴾

۸۲۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

82۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر چشم ظاہر بین کو صبر نہیں آتا۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کشتی میں سوراخ کرنا اور لڑکے کو قتل کرنا حضرت خضر علیہ السلام کا عمل نہ ہو بلکہ اللہ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے واقعات کو تمثیلی طور پر پیش کیا گیا ہو اور ان حقائق کو حضرت خضر علیہ السلام کے عمل کی صورت میں دکھایا گیا ہو جو کہ در حقیقت اللہ کی طرف سے تھا۔

تاویل کے بارے میں مقدمہ میں بھی بحث ہو گئی ہے کہ ہر واقعہ اور فعل کی تاویل وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر فعل کی مصلحت اور اس کی افادیت کا انحصار ہے۔ وہی اس کا محرک اور جواز بنتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح نظام کائنات کے پوشیدہ رازوں کا مطالعہ کرانا مقصود ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو جس مرتبہ کا ملکوتی مطالعہ کرایا، موسیٰ علیہ السلام کو اس سے کم تر درجے کا مطالعہ کرایا۔ چنانچہ اس درس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سیکھا کہ اس کائنات میں رونما ہونے والے وہ واقعات جن کی ہم کوئی مثبت توجیہ نہیں کر سکتے، ان کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہے جو اس کائنات کے بہتر نظام کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ یہ ہمارے روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کا اکلوتا بچہ مر جاتا ہے۔کسی غریب مسکین کی جمع پونجی ضائع ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔ ایک ظالم کے پاس طاقت اور ایک مظلوم کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ اور اس کی توجیہ اور مصلحت عام لوگوں کی فہم سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی میں رونما ہونے والے اس قسم کے حالات اور حادثات کے پیچھے جو اسرار و رموز پوشیدہ ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو آگاہ فرماتا ہے۔