فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا﴿۶۱﴾

۶۱۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا ۔

61۔ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ : دونوں دریاؤں کے سنگم۔ بعض کے نزدیک بحر ازرق اور بحر ابیض، جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں آپس میں ملتی ہیں، وہ مقام مراد ہے جو موجودہ شہر خرطوم کے نزدیک ہے اور بعض کے نزدیک یہ خلیج فارس اور بحر روم کا سنگم ہے۔ لیکن یہ سب باتیں ظن و گمان اور اندازے کے سوا کچھ نہیں۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا﴿۶۲﴾

۶۲۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔

قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ جوان نے کہا: بھلا مجھے بتاؤ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے سمندر میں اپنی راہ بنائی ۔

63۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بتایا گیا تھاکہ وہ معلم دو دریاؤں کے سنگم پر ملیں گے، جہاں سے مچھلی دریا میں چلی جائے گی۔ اس بات کی تفسیر کہیں نہیں ملتی کہ وہ جوان اس حیرت انگیز واقعے کو کیسے بھول گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آتے ہیں اور اسی سنگم پر وہ بندہ ٔخدا سے ملتے ہیں۔

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

65۔ جس عبد خدا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تعلیم حاصل کرنا تھی، وہ اسلامی روایات کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاصر نبی تھے۔ بعض روایات کے مطابق آپ ابھی تک زندہ ہیں۔

اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا :جسے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔رحمت سے مراد قرآنی اصطلاح میں نبوت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا: وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ ۔ (ہود : 28)

قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا﴿۶۶﴾

۶۶۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟

66۔ تعلیم کے ذکر سے پہلے اتباع کا ذکر بتلاتا ہے کہ شاگرد کے لیے استاد کی اتباع اور پیروی کرنا بنیادی بات ہے اور ساتھ شاگردی کے آداب میں اتباع کو اولیت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے اتباع کا ذکر پہلے اور تعلیم کا ذکر بعد میں آگیا۔

قَالَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

وَ کَیۡفَ تَصۡبِرُ عَلٰی مَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ خُبۡرًا﴿۶۸﴾

۶۸۔ اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے؟

68۔ انجام کا علم نہ ہو تو صبر نہیں آتا۔ لہٰذا صبر کا علم سے گہرا ربط ہے۔ اگر شفا کے حصول کا علم نہ ہو تو معالجے کی تلخی قابل تحمل نہیں ہوتی۔ حدیث میں آیا ہے: وَ مَنْ عَرَفَ قَدْرَ الصَّبْرِ لَا یَصْبِرُ عَمَّا مِنْہُ الصَّبْرُ ۔ (مستدرک الوسائل 2: 427) اگر صبر کی قدر و قیمت کا علم ہو جائے تو جس سے صبر کرنا ہوتا ہے، اس پر صبر نہ کرنے پر صبر نہ آتا۔

قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا﴿۶۹﴾

۶۹۔ موسیٰ نے کہا: ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

69۔ یہ ایک عزم و ارادے کا اظہار ہے اور حالات کا سامنا کرنے سے پہلے یہ اظہار اپنی جگہ سچا ہے۔ یہ عہد و پیمان حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس اعتبار سے دیا ہے کہ اللہ کے حکم سے جس استاد سے علم حاصل کرنا ہے، وہ یقینا خلاف شرع کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ بعد میں جب خلاف ورزی سرزد ہوئی، اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے عہد کی خلاف ورزی تصور نہیں کرتے تھے، جبکہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کی خلاف ورزی پر برہم تھے۔ بادی الرائے میں اس برہمی کو خلاف ورزی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے توجہ دلانے پر انہوں نے معذرت کی۔

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعۡتَنِیۡ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِیۡ عَنۡ شَیۡءٍ حَتّٰۤی اُحۡدِثَ لَکَ مِنۡہُ ذِکۡرًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ اس نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلنا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت تک کوئی بات مجھ سے نہیں پوچھیں گے جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ سے ذکر نہ کروں۔

70۔ یعنی کوئی بھی حادثہ یا مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کے انجام کا انتظار کرنا ہو گا۔ اگر اس حادثہ اور مسئلہ کی کوئی توجیہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو لب اعتراض نہ کھولنا۔