قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا ۙ وَ ہُمۡ یَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَہُمۡ عَلٰی ظُہُوۡرِہِمۡ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔وہ لوگ گھاٹے میں رہ گئے جو اللہ سے ملاقات کو جھٹلاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آجائے گی تو (یہی لوگ) کہیں گے: افسوس ہم نے اس میں کتنی کوتاہی کی اور اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادے ہوئے ہوں گے،دیکھو کتنا برا ہے یہ بوجھ جو یہ اٹھائے ہوئے ہیں۔

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور دنیا کی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور اہل تقویٰ کے لیے دار آخرت ہی بہترین ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

32۔ ان لوگوں کی دنیا صرف لہو و لعب کھیل تماشا ہے جو حیات اخروی کے قائل نہیں ہیں اور صرف اسی دنیا کی زندگی کے لیے جی رہے ہیں۔ اس لیے اس زندگی کو کھیل اور لہو سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ لہو اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے باز رکھے، ورنہ مومن کی دنیاوی زندگی آخرت کے لیے کھیتی ہے اور جتنی فصل مقدس ہے اتنی ہی کھیتی مقدس ہے۔

دنیا کو کھیل تماشہ کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس زندگی کی اسلام کی نظر میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخروی ابدی زندگی سے متصادم یہ زندگی کھیل تماشا ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی اگر آخرت کی زندگی کے خلاف گزاری جاتی ہے تو اس کی مذمت ہے۔ ورنہ اس زندگی کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

قَدۡ نَعۡلَمُ اِنَّہٗ لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ لَا یُکَذِّبُوۡنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ہمیں علم ہے کہ ان کی باتیں یقینا آپ کے لیے رنج کا باعث ہیں، پس یہ صرف آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم لوگ درحقیقت اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔

33، 34۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار کی طرف سے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جو تضحیک و تکذیب ہو رہی ہے، یہ درحقیقت اللہ کی تکذیب ہے۔

دوسری آیت میں اس روش کی طرف توجہ دلائی کہ اس راستے میں تمام انبیاء کو اسی قسم کے مراحل سے گزارا گیا اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے فتح و نصرت اس سفر کے آخری مرحلے میں آتی ہے۔

وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاتے رہے اور تکذیب و ایذا پر صبر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اور اللہ کے کلمات تو کوئی بدل نہیں سکتا، چنانچہ سابقہ پیغمبروں کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں۔

وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۳۵﴾ ۞ؒ

۳۵۔ اور ان لوگوں کی بے رخی اگر آپ پر گراں گزرتی ہے تو آپ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کریں پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے کر آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا، پس آپ نادانوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

35۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کے بارے میں ایک الٰہی سنت (روش) کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کو وہ ایمان مطلوب ہے جسے قلب قبول کرے، جس کے سامنے ضمیر جھک جائے اور دل منطقی دلیل کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دے، نہ کہ طاقت و شمشیر کے سامنے۔

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی :اگر اللہ چاہتا تو اپنی قوت قاہرہ سے انہیں ایمان لانے پر مجبور کر دیتا۔ لیکن ایسے جبری ایمان کی کیا قیمت ہو گی؟ اس قسم کا جبری ایمان تو وہ قیامت کے دن لائیں گے، مگراس ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

اس آیت سے اور دیگر متعدد آیات سے ان جاہل افراد کی حرکات کی شرعی حیثیت واضح ہو جاتی ہے جو اپنے مسلک کی تقویت اور اپنے مخالفوں کو زیر کرنے کے لیے منطقی دلائل اور علمی استدلال کی بجائے طاقت استعمال کرتے ہیں۔

اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ﴿؃ ۳۶﴾

۳۶۔ یقینا مانتے وہی ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ (قبروں سے) اٹھائے گا پھر وہ اسی کی طرف پلٹائے جائیں گے۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یُّنَزِّلَ اٰیَۃً وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ ہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور وہ کہتے ہیں: اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ نازل کیوں نہیں ہوا؟ کہدیجئے: اللہ معجزہ نازل کرنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

37۔ معجزہ اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کے مطالبے کے بغیر پیش کیا جائے تو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقانیت ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر اسے لوگ قبول نہ کریں تو عذاب نازل نہیں ہوتا ہے لیکن اگر معجزہ لوگوں کے مطالبے پر پیش کیا جائے تو اس پر ایمان نہ لانے کی صورت میں فوری عذاب نازل ہو جاتا ہے، جیسا کہ ناقہ صالح کے سلسلے میں ہوا۔

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ؕ مَا فَرَّطۡنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ یُحۡشَرُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اور ہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندے بس تمہاری طرح کی امتیں ہیں، ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب) اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔

38۔ ہر جاندار تولد نسل اور حصول رزق کے طریقوں کی شناخت نیز اپنی ذات سے محبت، دوست و دشمن کی شناخت اور حب بقا وغیرہ میں انسان کی طرح ہے۔

ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ یُحۡشَرُوۡنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوانات بھی اپنے شعور کے دائرے میں ذمہ دار ہیں۔ کل قیامت کے دن ان سب کو جمع کیا جائے گا۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُکۡمٌ فِی الظُّلُمٰتِ ؕ مَنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یُضۡلِلۡہُ ؕ وَ مَنۡ یَّشَاۡ یَجۡعَلۡہُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں جو تاریکیوں میں (پڑے ہوئے) ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے ۔

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ اَوۡ اَتَتۡکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیۡرَ اللّٰہِ تَدۡعُوۡنَ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ کہدیجئے: یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ جائے تو کیا تم (اس وقت) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو۔