قلبی ایمان


وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور ان لوگوں کی بے رخی اگر آپ پر گراں گزرتی ہے تو آپ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کریں پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے کر آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا، پس آپ نادانوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

35۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کے بارے میں ایک الٰہی سنت (روش) کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کو وہ ایمان مطلوب ہے جسے قلب قبول کرے، جس کے سامنے ضمیر جھک جائے اور دل منطقی دلیل کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دے، نہ کہ طاقت و شمشیر کے سامنے۔

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی :اگر اللہ چاہتا تو اپنی قوت قاہرہ سے انہیں ایمان لانے پر مجبور کر دیتا۔ لیکن ایسے جبری ایمان کی کیا قیمت ہو گی؟ اس قسم کا جبری ایمان تو وہ قیامت کے دن لائیں گے، مگراس ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

اس آیت سے اور دیگر متعدد آیات سے ان جاہل افراد کی حرکات کی شرعی حیثیت واضح ہو جاتی ہے جو اپنے مسلک کی تقویت اور اپنے مخالفوں کو زیر کرنے کے لیے منطقی دلائل اور علمی استدلال کی بجائے طاقت استعمال کرتے ہیں۔

اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَۃً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُہُمۡ لَہَا خٰضِعِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں ۔

4۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے، لیکن اللہ کو جبری ایمان منظور نہیں ہے، نہ ہی جبری ایمان کی کوئی قیمت ہے۔ جبری ایمان تو فرعون نے بھی قبول کیا تھا۔ جب غرق ہو رہا تو کہا تھا: میں ایمان لاتا ہوں اس اللہ پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ اللہ کو جبری ایمان اس لیے قبول نہیں ہے، کیونکہ ایمان وہ ہے جس میں ذات الہٰی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کی محبت دل میں اتر جائے پھر اسے قبول کرے۔