وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی نجات نہیں پائیں گے۔

20۔ 21۔ اہل کتاب پر نازل ہونے والی کتابوں میں رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوصاف و شمائل ایسے بیان ہوئے تھے کہ وہ ان کو پہنچاننے میں کسی اشتباہ یا دقت کے شکار نہ ہوتے بلکہ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو ہزاروں میں سے بلا تردد پہچان لیتا ہے اسی طرح وہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی پہچانتے ہیں، لہٰذا اہل کتاب کسی اشتباہ یا غلط فہمی کی وجہ سے اس رسول کے منکر نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ ان کو رسول حق جاننے کے باجود نہیں مانتے: اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ ۔ (اعراف: 157)

وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَیۡنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جس دن ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے پوچھیں گے: تمہارے وہ شریک اب کہاں ہیں جن کا تمہیں زعم تھا؟

ثُمَّ لَمۡ تَکُنۡ فِتۡنَتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشۡرِکِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔پھر ان سے اور کوئی عذر بن نہ سکے گا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: اپنے رب اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ کَذَبُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔دیکھیں: انہوں نے اپنے آپ پر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ وہ افترا کرتے تھے کس طرح بے حقیقت ثابت ہوا؟

22 تا 24۔ بروز قیامت مشرکین سے یہ خطاب ہو گا کہ وہ اپنے ان دیوتاؤں کو تلاش کریں جن سے انہوں نے ساری امیدیں وابستہ کر رکھیں تھیں کہ وہ اس روز ان کی شفاعت کریں، ان کو نجات دلائیں۔ مشرکین جواب میں یہ عذر پیش کریں گے اور قسم کھائیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے: يَوْمَ يَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَہٗ كَـمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰي شَيْءٍ (مجادلۃ: 18) وہی طرز قسم جو دنیا میں کھایا کرتے تھے۔ یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ اس دن تمام راز فاش ہو جائیں گے۔ جس کی وجہ سے انکار کی گنجائش نہیں رہتی تاہم دنیا میں جن لوگوں کا خلق و خو حقائق سے انکار کرنا تھا، آخرت میں اسی خلق و خو کے ساتھ محشور ہوں گے۔ چنانچہ دنیا میں مشرکین کا خلق و خو حقائق سے انکار کرنا تھا، یہی وطیرہ قیامت کے دن بھی اپنائیں گے۔

ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ قیامت کے روز حقائق سامنے آئے تو ان دیوتاؤں کی حقیقت فاش ہو گئی کہ وہ ایک واہمہ کے سوا کچھ نہ تھے۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡکَ یُجَادِلُوۡنَکَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر آپ کی باتیں سنتے ہیں، لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ انہیں سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی (بہراپن) ہے اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ یہ (کافر) آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں، کفار کہتے ہیں: یہ تو بس قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

25۔ اس سے پہلے بھی کئی بار ذکر آیا کہ جو لوگ قابل ہدایت نہیں رہتے اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت و شفقت کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اسی کو دلوں پر پردہ ڈالنے اور مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ کا طریقہ کار اور سنت یہ کہ جو اس کی ہدایت کو قبول اور حاصل کرنے کے لیے سعی کرتے ہیں ان کو ہدایت سے نوازتا ہے: وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا (عنکبوت: 69) اور تزکیہ نفس کے ساتھ نجات و کامیابی ممکن ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا ۔(شمس:9) اس کے برخلاف جن لوگوں نے انکار اور عصبیت کا تہیہ کر رکھا ہے وہ تمام نشانیاں دیکھ بھی لیں ایمان نہیں لاتے۔

وَ ہُمۡ یَنۡہَوۡنَ عَنۡہُ وَ یَنۡـَٔوۡنَ عَنۡہُ ۚ وَ اِنۡ یُّہۡلِکُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور یہ(لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر اس کا شعور نہیں رکھتے۔

26۔ وَ ہُمۡ یعنی وہ لوگ جو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمکے پاس آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جھگڑنے کے لیے آتے ہیں نیز لوگوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ سیاق و سباق کلام، رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے جھگڑنے والے مشرکین کے بارے میں ہے، لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور اردو تفسیر معارف القرآن کے مؤلف وغیرہ نے اس روایت کی نقل میں کوئی خفت محسوس نہیں کی کہ یہ آیت حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ لوگوں کو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمکی اذیت سے روکتے تو تھے لیکن خود ایمان لانے سے دوری اختیار کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا میں جمع کا صیغہ مفرد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس آیت میں یَنۡہَوۡنَ اور وَ یَنۡـَٔوۡنَ جمع کے صیغے مفرد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ فرق باپ بیٹے کا تو نہیں کہ بیٹے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا، باپ کے لیے ہو سکتا ہے، بلکہ فرق یہ ہے کہ آیہ اِنَّمَا سے بیٹے حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور اس آیت سے (نعوذ باللہ) باپ کا کفر ثابت ہوتا ہے۔ خود روایت کا حال یہ ہے کہ اولاً حبیب بن ابی ثابت ایک مجہول شخص سے روایت ہے۔ ثانیاً یہ روایت ابن عباس کی طرف منسوب ہے جو ان متعدد روایات سے متصادم ہے جو خود ابن عباس سے مروی ہیں اور جن میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں ہے جو قرآن سننے سے روکتے تھے۔

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ وُقِفُوۡا عَلَی النَّارِ فَقَالُوۡا یٰلَیۡتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر آپ (وہ منظر)دیکھیں جب وہ جہنم کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے: کاش ہم پھر (دنیا میں) لوٹا دیے جائیں اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ہم ایمان والوں میں شامل ہو جائیں۔

بَلۡ بَدَا لَہُمۡ مَّا کَانُوۡا یُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔بلکہ ان پر وہ سب کچھ واضح ہو گیا جسے یہ پہلے چھپا رکھتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے اور یقینا یہ جھوٹے ہیں۔

27۔28۔عالم آخرت کے مشاہدے کے بعد مشرک یہ آرزو کرے گا کہ کاش ہمیں ایک موقع اور مل جاتا تو ہم ایمان والوں میں شامل ہو جاتے۔ اگرچہ واپس دنیا میں جانا ممکن نہیں ہے لیکن انسان ناممکنات کی بھی آرزو کرتا ہے کہ کاش جوانی لوٹ آتی۔

بَلۡ بَدَا لَہُمۡ : یہ آرزو وہ اس وقت کریں گے جب ان پر وہ بات واضح ہو جائے گی جسے یہ دنیا میں چھپاتے تھے۔ یعنی اپنے اعمال بد کو چھپاتے تھے، آج وہ آتش جہنم کے مشاہدے سے ظاہر ہو گئے۔

جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَبَدَا لَہُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا (زمر:48) یہ جنت و نار کی حقانیت کو دنیا میں چھپاتے تھے، آج آتش جہنم کے مشاہدے سے وہ بات عیاں ہو گئی۔

وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا : اگر انہیں دنیا میں واپس بھی کیا جائے تو وہی کفر اختیار کریں گے۔ چنانچہ جو لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو بڑے خلوص سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جب عافیت مل جاتی ہے تو پھر اسی گندی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔

وَ قَالُوۡۤا اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔اور کہتے ہیں: ہماری اس دنیاوی زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں اور ہم (مرنے کے بعد دوبارہ) زندہ نہیں کیے جائیں گے۔

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ وُقِفُوۡا عَلٰی رَبِّہِمۡ ؕ قَالَ اَلَیۡسَ ہٰذَا بِالۡحَقِّ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ رَبِّنَا ؕ قَالَ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ اور اگر آپ(وہ منظر ) دیکھ لیں جب یہ لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو وہ فرمائے گا: کیا یہ(دوبارہ زندہ ہونا)حق نہیں ہے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں؟ ہمارے رب کی قسم (یہ حق ہے)، وہ فرمائے گا: پھر اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔