بَلۡ اِیَّاہُ تَدۡعُوۡنَ فَیَکۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَیۡہِ اِنۡ شَآءَ وَ تَنۡسَوۡنَ مَا تُشۡرِکُوۡنَ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ بلکہ (اس وقت) تم اللہ ہی کو پکارو گے اور اگر اللہ چاہے تو یہ مصیبت تم سے ٹال دے گا جس کے لیے تم اسے پکارتے تھے اور جنہیں تم نے شریک بنا رکھا ہے اس وقت انہیں تم بھول جاؤ گے۔

41۔ اس آیت میں توحید پر فطری اور جبلتی دلیل پیش کی گئی ہے کہ اللہ کے وجود پر دلیل اور نشان خود تمہارے وجود کے اندر ہے کہ انسان کی فطرت اور جبلت میں یکتا پرستی ودیعت ہوئی ہوئی ہے کہ اگر انسان پر بیرونی منفی اثرات نہ ہوں، یعنی خواہشات اور برے ماحول اور منفی تربیت وغیرہ نے ضمیر کو دبا نہ رکھا ہو، تعصب اور جمود نے اس پر تعقل و تفکر کا دروازہ بند نہ کیا ہو، صرف انسان ہو اور اس کی فطرت تو انسان فطرتاً یکتا پرست رہتا ہے۔ اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب انسان پر کوئی ناگہانی آفت آ جاتی ہے۔ مثلاً کوئی مسافر کشتی پر سوار ہو اور وہ طوفان میں گھر جائے اور موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آ جائے تو اس وقت انسان سے تمام غیر فطری عوامل دور ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی خالص فطرت کی زندگی میں آ جاتا ہے، دبا ہوا ضمیر بھی زندہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت دیو، دیوتا یاد نہیں آتا۔ صرف خدائے واحد کے سوا کوئی پناہ اسے نظر نہیں آتی۔ بڑا مشرک جو اپنے بتوں کے لیے سخت ترین تعصب رکھتا ہو، اس موقع پر وہ انہیں فراموش کرتا ہے اور اس خدائے حقیقی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے جو اس کی جبلت کے اندر ہے۔ یہ دلیل ہے کہ یکتا پرستی خود انسان کے نفس کے اندر موجود ہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔اور بے شک آپ سے پہلے (بھی) بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے پھر ہم نے انہیں سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کا اظہار کریں۔

فَلَوۡلَاۤ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَا تَضَرَّعُوۡا وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ پھر جب ہماری طرف سے سختیاں آئیں تو انہوں نے عاجزی کا اظہار کیوں نہ کیا؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے۔

42۔43۔ اللہ تعالیٰ اس قانون کی دفعات بیان فرما رہا ہے جو اس سے پہلے کی تمام قوموں پر حاکم رہی ہیں: اللہ نے مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجے اور ان کو توحید کی طرف دعوت دی اور اللہ کی نشانیاں بھی دکھائیں۔ ان قوموں کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے ان پر کچھ سختیاں بھی نازل فرمائیں۔ ایسی سختیاں جو انسان ساز ہوتی ہیں۔ لیکن ان میں نرمی آنے کی بجائے یہ لوگ اور سخت ہو گئے اور ان کے مراسم خرافات اور اعمال بد کو شیطان نے مزید زیبائش دی۔ جیسا کہ قوم موسیٰ، فرعونیوں کو مختلف آفتوں میں مبتلا کیا: وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّـنِيْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّـرُوْنَ ۔ (اعراف:130) اور بتحقیق ہم آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔ اس کی مثال ہماری معاصر دنیا میں یورپ اور ایڈز کی بیماری ہے کہ شیطان اس بیماری کے محرک عمل بد کو آراستہ کرکے ان کو دکھاتا ہے۔

فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَبۡوَابَ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوۡا بِمَاۤ اُوۡتُوۡۤا اَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡلِسُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔پھر جب انہوں نے وہ نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔اس طرح ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ثنائے کامل اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

44۔45۔ اللہ تعالیٰ جس طرح مصائب و آلام کے ذریعے قوموں کی آزمائش فرماتا ہے، اسی طرح خوشحالی اور وافر نعمتوں سے مالا مال کر کے بھی آزمائش میں ڈالتا ہے: وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّـيِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ۔ (اعراف: 168) اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں اور خوشحالی کی آزمائش بدحالی کی آزمائش سے زیادہ سنگین اور صبر آزما ہوتی ہے۔ چنانچہ ان آزمائشوں میں مومن خوشحالی میں شکر اور بدحالی میں صبر کرتا ہے اور غیر مومن خوشحالی میں اتراتا ہے اور بدحالی میں بے صبر ہوتا ہے۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔کہدیجئے:(کافرو) مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور تمہاری بصارت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ (چیزیں) عطا کرے؟ دیکھو ہم کس طرح اپنی آیات بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ بَغۡتَۃً اَوۡ جَہۡرَۃً ہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ کہدیجئے: بھلا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر اچانک یا علانیہ طور پر آ جائے تو کیا ظالموں کے سوا کوئی ہلاک ہو گا؟

46۔47 نفی شریک پر ایک اور دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور ذات بھی موجود ہو جو اللہ کے ساتھ دفع ضرر اور جذب منفعت میں مؤثر ہو تو یہ دیکھ لو کہ تمہاری آنکھیں اور کان کی قوت، بصارت و سماعت اگر اللہ چھین لے تو پتھر کے یہ بت تمہیں یہ چیزیں واپس دلا سکیں گے؟ اگر نہیں دلا سکتے تو اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ان پتھروں کو کیوں شفیع اور مؤثر سمجھتے ہو اور اپنے آپ کو ظالموں میں شامل کر کے ہر آنے والے عذاب کا نشانہ کیوں بنتے ہو۔

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ فَمَنۡ اٰمَنَ وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔اور ہم تو رسولوں کو صرف بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے بنا کر بھیجتے ہیں، پھر جو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے تو ایسے لوگوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّہُمُ الۡعَذَابُ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿٪۵۰﴾

۵۰۔کہدیجئے: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی ہوتی ہے، کہدیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟کیا تم غور نہیں کرتے؟

50۔ خزانۂ الہٰی سے ممکن ہے وہ منبع فیض مراد ہو جس سے تمام موجودات ان کے وجود سمیت مستفیض ہو رہی ہیں۔ اسی کو خزائن رحمت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی مصدر فیض سے پوری کائنات وجود میں آئی وَلِلہِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (منافقون: 7) آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف سے کوئی رسول آتا ہے تو اسے انسانوں کی طرح بھوک و پیاس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ وہ رسول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ جب حکم دے تو پہاڑ سونے کا ہو جائے، اس کے ایک اشارے سے دنیا کی ساری نعمتیں سمٹ کر سامنے آ جائیں۔ یہ کیسا رسول ہوا کہ اس کو اپنی ضرورتوں کے لیے لوگوں سے قرض لینے تک کی نوبت آ جائے۔ مشرکین کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہیں کرتے یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی ایسا باغ ہو جس کے درمیان نہریں بہ رہی ہوں یا جیسا کہ آپ خیال کرتے ہیں آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں یا خود آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو۔ (اسراء: 93)

علم غیب کی دو قسمیں ہیں: ایک ذاتی علم جو کسی تعلیم اور وحی کے بغیر بذات خود معلوم ہو۔ یہ علم صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے۔ دوسرا وہ علم جو وحی اور تعلیم کے ذریعے کسی ذات میں آ جائے۔ یہ علم غیب اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو عنایت فرماتا ہے: ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۔ (آل عمران: 44) یہ غیب کی خبریں ہم آپ کو وحی کے ذریعے بتا رہے ہیں۔