آیات 40 - 41
 

قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ اَوۡ اَتَتۡکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیۡرَ اللّٰہِ تَدۡعُوۡنَ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ کہدیجئے: یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ جائے تو کیا تم (اس وقت) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو۔

بَلۡ اِیَّاہُ تَدۡعُوۡنَ فَیَکۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَیۡہِ اِنۡ شَآءَ وَ تَنۡسَوۡنَ مَا تُشۡرِکُوۡنَ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ بلکہ (اس وقت) تم اللہ ہی کو پکارو گے اور اگر اللہ چاہے تو یہ مصیبت تم سے ٹال دے گا جس کے لیے تم اسے پکارتے تھے اور جنہیں تم نے شریک بنا رکھا ہے اس وقت انہیں تم بھول جاؤ گے۔

تشریح کلمات

اَرَءَیۡتَکُمۡ:

( ر ء ی ) اخبرنی کے قائم مقام ہوتا ہے۔ اگر اس میں ’’کاف‘‘ (ضمیر خطاب) داخل ہو تو حالت تثنیہ جمع اور تانیث میں تاء کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان حالتوں میں قاء کی جگہ کاف میں حسب مقام تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ جیسے ارائیتک ھذا الذی ۔ (راغب)

تفسیر آیات

اس آیت میں توحید پر فطری اور جبلتی دلیل پیش کی گئی ہے کہ اللہ کے وجود پر دلیل اور نشان خود تمہارے وجود کے اندر ہے کہ انسان کی فطرت اور جبلت میں یکتا پرستی ودیعت ہوئی ہے کہ اگر انسان پر بیرونی منفی اثرات نہ ہوں، خواہشات، برے ماحول اور منفی تربیت وغیرہ نے ضمیر کو نہ دبا رکھا ہو، تعصب اور جمود نے اس پر تعقل و تفکر کا دروازہ بند نہ کیا ہو، صرف انسان ہو اور اس کی فطرت تو انسان فطرۃً یکتا پرست رہتا ہے۔ اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب انسان پر کوئی ناگہانی آفت آ جاتی ہے۔ مثلاً کوئی مسافر کشتی پر سوار ہو اور وہ طوفان میں گھر جائے اور موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آ جائے تو اس وقت انسان سے تمام غیر فطری عوامل دور ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی خالص فطرت کی زندگی میں آ جاتا ہے اور دبا ہوا ضمیر بھی زندہ ہو جاتا ہے۔

بَلۡ اِیَّاہُ تَدۡعُوۡنَ: اس وقت دیو، دیوتا یاد نہیں آتے بلکہ خدائے واحد کے سوا کوئی پناہ دہندہ اسے نظر نہیں آتا۔ بڑا مشرک جو اپنے بتوں کے لیے سخت ترین تعصب رکھتا ہو، اس موقع پر انہیں فراموش کر دیتا ہے اور اس خدائے حقیقی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے جو اس کی جبلت کے اندر ہے۔ یہ دلیل ہے کہ یکتا پرستی خود انسان کے نفس میں موجود ہے۔

فَیَکۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَیۡہِ اِنۡ شَآءَ: اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرنے کے بعد اللہ مشرک کی بھی دعا سنتا ہے۔ ہمیشہ اور ہر وقت نہیں۔ اِنۡ شَآءَ اگر اللہ کی مشیت میں آئے تو اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ شرک چھوڑ دے۔

اہم نکات

۱۔ خواہشات اور تعصبات انسان کے ضمیر و وجدان پر غالب آ جائیں تو اللہ کا وجود اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔

۲۔ ہر انسان کے لیے ایسا وقت ضرور آتا ہے جب تمام غیر فطر ی عوامل دور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اللہ کے سوا سب کچھ فراموش ہو جائے گا جب کہ اس سے پہلے اللہ کے سوا اسے سب کچھ یاد تھا۔


آیات 40 - 41