آیت 34
 

وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاتے رہے اور تکذیب و ایذا پر صبر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اور اللہ کے کلمات تو کوئی بدل نہیں سکتا، چنانچہ سابقہ پیغمبروں کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ: اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ اس الٰہی دعوت کی تاریخ اور اس میں رائج سنت الٰہیہ کی طرف دلائی کہ تاریخ انبیاء میں آپؐ کی تکذیب پہلا واقعہ نہیں ہے، دیگر رسولوں کی بھی تکذیب ہوئی ہے۔

۲۔ فَصَبَرُوۡا: اس تکذیب پر صبر سے کام لیا۔ جو لوگ صداقت و اخلاص کی آخری منزل پر فائز ہوں، ان کو جھٹلایا جائے تو یہ بات نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ رسولوں نے اس تکلیف کا صبر سے مقابلہ کیا۔

۳۔ وَ اُوۡذُوۡا: صرف تکذیب نہیں، اس کے بعد اذیت بھی دی گئی۔ یہاں صبر کا دوبارہ ذکر نہیں کیا، چونکہ صبر کی منزل پر اذیت پہنچنے سے پہلے فائز تھے۔

۴۔ اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا: اب اللہ کی نصرت کا مرحلہ آتا ہے۔ یعنی اللہ کی نصرت تکذیب، صبر اور اذیت کے تحمل کے بعد آتی ہے۔ مزید تشریح کے لیے البقرۃ: ۲۱۴ ، یوسف: ۱۱۰ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۔ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ: اللہ کے فیصلے کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے۔ یعنی تکذیب اور اذیت اور صبر کے بعد اللہ کی نصرت کا آنا حتمی فیصلہ ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ جیساکہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ (۳۷ صافات: ۱۷۱ ۔ ۷۲)

اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں۔

وَ لَقَدۡ جَآءَکَ: مرسلین کی تاریخ اور سرگزشت، آپؐ کے سامنے ہے کہ ان کو کن صبر آزما مراحل سے گزارا گیا اور آخر میں ہمیشہ وہی فاتح رہے، اسی طرح آپ بھی فتحیاب ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ تمام رسولوں کی سرگزشت ایک جیسی رہی ہے: کُذِّبَتۡ رُسُلٌ ۔۔۔۔

۲۔ اللہ کی نصرت صبر و اذیت کے بعد آتی ہے: اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۔۔۔۔

۳۔ مرسلین کے لیے اللہ کی نصرت، اللہ کا ایک حتمی فیصلہ ہے: لَا مُبَدِّلَ ۔۔۔۔


آیت 34