آیت 38
 

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ؕ مَا فَرَّطۡنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ یُحۡشَرُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اور ہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندے بس تمہاری طرح کی امتیں ہیں، ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب) اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔

تشریح کلمات

فَرَّطۡنَا:

( ف ر ط ) الافراط کے معنی حد سے زیادہ تجاوز کر جانے کے ہیں اور تفریط کے معنی کوتاہی کرنے کے ہیں۔ افراط، تفریط کے معنی زیادتی، کوتاہی کے ہیں کہ جب کوئی معاملہ اعتدال سے نکلتا ہے تو افراط، تفریط کہا جاتا ہے۔ جسے اردو میں افراتفری کر دیا گیا ہے۔

تفسیر آیات

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ: ہر جاندار جو زمین پر رینگتا ہے، دابّہ ہے۔ طائر، پرندہ۔ مچھلی کا ذکر اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ پرندے میں شامل ہے۔

اُمَمٌ: امت کی جمع۔ امت: ایک نسل، ایک جنس جو ایک نظریہ یا ایک زمان و مکان یا ایک نوع خلقت و طریقۂ زیست پر مشتمل ہو۔

اَمۡثَالُکُمۡ: یہ تمام جاندار تمہاری طرح کی امتیں ہیں۔ یعنی ہر جاندار انسان کی طرح امت ہے جو ایک ایسی چیز پر مجتمع ہے جس سے ایک امت کی تشکیل ہو جاتی ہے۔ صرف انسان نہیں، جس کے تمام افراد ایک انسانی وحدت میں منسلک ہیں بلکہ تمام جاندار بھی اسی طرح ایک وحدت میں منسلک ہیں۔ مثلاً i۔تولید نسل، ii۔ اپنی ذات سے محبت، iii۔ دشمن کی شناخت، iv۔ حصول رزق کے ذرائع کی شناخت، v۔ اولاد سے محبت، vi۔ اجتماعی زندگی۔ مثلاً چونٹیوں میں اجتماعی زندگی ہے، vii۔ تنظیم در زندگی۔ چیونٹیوں میں یہ تنظیم اعلیٰ درجے کی ہے، viii۔ قانون زندگی۔ شہد کی مکھیوں میں قانون نافذ ہے کہ کوئی شہد کی مکھی گندی جگہ بیٹھ جائے تو اسے سخت سزا ملتی ہے، ix۔ جانوروں کی تسخیر۔ چونٹیاں، دیگر حشرات کو اسی طرح اپنی ضروریات کے لیے تسخیر کرتی ہیں، جیسے ہم بھینس، گائے کو تسخیر کرتے ہیں۔

لیکن کیا اَمۡثَالُکُمۡ ’’تمہاری طرح‘‘ سے مراد یہی چیزیں ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے؟ کیا پوری آیت کے سیاق میں اَمۡثَالُکُمۡ کی نوعیت پر کوئی قرینہ موجود ہے؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ آیت میں دو قرینے ایسے ہیں جن سے اَمۡثَالُکُمۡ کی نوعیت کا تعین ہو سکتا ہے۔ پہلے ہم اس نوعیت کا ذکر کرتے ہیں، بعد میں قرائن کا۔

نوعیت، احساس مسؤلیت اور جوابدہی کا شعورہے۔ اس شعور کے تحت حیوانات بھی انسانوں کی طرح جوابدہ ہیں اور اس جوابدہی کی بنیاد پر سزا اور جزا مترتب ہوتی ہے۔ البتہ یہ شعور، یہ جوابدہی اور سزا و جزا حیوانات کے شعور کی حد تک ہے۔ انسان کے شعور اور جوابدہی کے درجے کی نہیں ہے۔

قرائن: اس پر پہلا قرینہ مَا فَرَّطۡنَا فِی الۡکِتٰبِ ہے۔ اس جگہ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہو سکتی ہے جو کتاب تکوین سے عبارت ہے۔ یعنی ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ اس نظام تکوین میں کوئی نقص نہیں ہے بلکہ تمام جاندار تم انسانوں کی طرح ایک قانون، ایک مقصد کے تحت ہیں۔ ان جانوروں کی خلقت اور مقصد خلقت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ اس سے یہ قرینہ مل سکتا ہے کہ ذمے داری کے شعور، حسن و قبح اور عدل و ظلم کے تصور میں جانور بھی تمہاری طرح ہیں کیونکہ ان چیزوں کا فقدان، کمی اور نقص ہے۔ ہر قسم کے شعور اور احساس ذمے داری سے عاری مخلوق بنانا عبث ہو جاتا ہے، جس کی قرآن نے نفی کی ہے۔

اگر الۡکِتٰبِ سے مراد قرآن لیا جائے تو شاید یہ قرینہ ثابت نہ ہو بلکہ انسانی ہدایت کے لیے قرآن کی جامعیت کی طرف اشارہ ہے:

وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ ۔ (۱۶ نحل: ۸۹)

اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

لیکن ہمارے نزدیک ربط کلام کے تحت الکتاب سے مراد لوح محفوظ اور کتاب تکوین زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس صورت میں یہ جملہ معترضہ بھی نہیں بنتا اور بزرگ مفسر کا یہ مؤقف قرین واقع معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جملہ معترضہ ہے۔

دوسرا قرینہ۔ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ یُحۡشَرُوۡنَ: پھر سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ یُحۡشَرُوۡنَ میں انسان کے ساتھ حیوانات بھی شریک ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ تم انسان، زمین پر چلنے والے جانور اور ہوا میں اڑنے والے پرندے سب اللہ کے سامنے جمع کیے جائیں گے۔ اس میں صراحت موجود ہے کہ ان جانوروں کو بھی اللہ کے سامنے جواب دینا ہے، جیساکہ انسان کو جواب دینا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے سامنے آنے کے بعد ثواب و عقاب کا ان کو سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۔ (۸۱ تکویر: ۵)

اور جب وحشی جانور اکھٹے کر دیے جائیں گے۔

حیوانات کی شعوری حیثیت: اس سلسلے میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ چیونٹی کا یہ کہنا:

قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (۲۷ نمل : ۱۸)

۰ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔

یہ چیونٹی حضرت سلیمان (ع) کی شناخت رکھتی ہے۔ اس ہجوم کو لشکر کے طور پر جانتی ہے اور چیونٹیوں کو روندنے کے سلسلے میں انسانوں کے عدم شعور کا ادراک رکھتی ہے۔

اسی سورہ میں ہُدۡہُدَ کا شعور واضح طریقے سے بیان ہوا ہے اور ہجرت کے موقع پر ناقۂ رسولؐ کا واقعہ مشہور ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تھا:

خلوا سبیلھا فانھا مأمورۃ ۔ (الکافی ۸:۸ ۳۲۔ بحار الانوار ۱۹: ۱۰۸۔ دلائل النبوۃ للبیہقی ۲: ۳۶۱،، باب من استقبل رسول اللہ ص، حدیث سعد بن معاذ ۔ و البدایۃ والنہایۃ والکامل، تإمتاع الاسماع ۔۔۔۔)

اسے اپنے حال پر چھوڑ دو، اس کو حکم ملا ہوا ہے۔

ممکن ہے حیوانات کا حشر حیوانات کی سزا و جزا کے لیے نہ ہو، بلکہ انسانوں نے جن حیوانات پر ناحق ظلم کیا ہے، اس کا بدلہ دلانے کے لیے ہو۔ حدیث میں آیا ہے:

ما من انسان یقتل عصفورا فما فوقھا بغیر حقھا الا سألہ اللّٰہ عنھا یوم القیٰمۃ ۔ (بحار الانوار ۶۱: ۳۰۶ و نسائی۔ المستدرک للحاکم ۴: ۲۶۱، کتاب الذبائح، صححہ الذہبی )

کوئی انسان ایسا نہ ہو گا جس نے کسی چڑیا یا اس سے کم تر کسی جانور کو ناحق قتل کیا ہو، مگر اللہ قیامت کے دن اس سے سوال کرے گا۔

یہاں مولائے متقیان امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے منقول فرمان نہایت قابل توجہ ہے:

وَ اللہِ لَوْ اَعْطِیتُ الْأقَالِیمَ السَّبْعَۃَ بِمَا تَحْتَ اَفْلاَکِھَا عَلَی اَنْ اَعْصِیَ اللہَ فِیْ نَمْلَۃٍ اَسْلُبُھَا ۔ (نہج البلاغۃ خ ۲۲۴)

قسم بخدا اگر مجھے ہفت اقلیم کی ملکیت زیر آسمان تمام دولت کے ساتھ دے دی جائے، اس بات کے عوض کہ میں کسی چیونٹی پر اس مقدار ظلم کر کے اللہ کی نافرمانی کروں کہ اس کے منہ سے جو کے چھلکے کو چھین لوں تو ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔

راقم اسی مؤقف کو ترجیح دیتا ہے کہ حیوانات اس لیے محشور ہوں گے کہ ان پر ظلم کرنے والوں سے بدلہ لیا جائے۔ اس صورت میں اَمۡثَالُکُمۡ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ حیوانات بھی تمہاری طرح شعور رکھتے ہیں۔ ظلم اور انصاف کو سمجھتے ہیں۔ اپنے خالق کی معرفت رکھتے ہیں:

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۴۴)

اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔۔۔۔

احساس مسؤلیت و ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اپنی مسؤلیت پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے مؤقف سے وہ سوالات نہیں اٹھائے جا سکتے جو اس سلسلے میں پیدا ہوئے ہیں:

اگر حیوانات بھی مکلف اور ذمہ دار ہیں اور انہوں نے جوابدہی کا سامنا کرنا ہے تو ان پر حجت کس طرح پوری ہو گئی ہو گی؟ کیا ان کی طرف خود ان میں سے کوئی پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں یا ان میں موجود فطرت کی بنیاد پر بازپرس ہو گی وغیرہ۔


آیت 38