آیت 32
 

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور دنیا کی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور اہل تقویٰ کے لیے دار آخرت ہی بہترین ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

تشریح کلمات

لَہۡوٌ:

( ل ھ و ) ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہٹائے اور باز رکھے۔

تفسیر آیات

جو حیات اخروی کے قائل نہیں ہیں، ان کی دنیا صرف لہو و لعب اور کھیل تماشا ہے۔ وہ صرف اسی دنیا کی زندگی کے لیے جی رہے ہیں، اس لیے اس زندگی کو کھیل اور لہو سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہلہو اس کام کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے باز رکھے۔ ورنہ مؤمن کی دنیاوی زندگی، آخرت کے لیے مزرعہ ہے اور جتنی فصل مقدس ہے، اتنی ہی کھیتی مقدس ہے۔

دنیا کو کھیل تماشا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس زندگی کی اسلام کی نظر میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخروی ابدی زندگی کے مقابلے میں یہ زندگی کھیل تماشا ہے۔ دنیا کی زندگی اگر آخرت کی زندگی کے خلاف گزاری جاتی ہے تو اس کی مذمت ہے، ورنہ اس زندگی کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَھَا

یہ دنیا اسے سچ سمجھنے والوں کے لیے سچائی کا گھر ہے،

وَ دَارُ عَافِیَۃٍ لِمَنْ فَہِمَ عَنْھَا

جو اس دنیا سے سمجھے اس کے لیے عافیت کا گھر ہے،

وَ دَارُ غِنًی لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْھَا

جو اس سے زاد راہ حاصل کرے اس کے لیے دولت کدہ ہے،

وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ تَّغَظَ بِھَا

جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے لیے نصیحت کا گھر ہے،

مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللہِ

اللہ کے دوستوں کی عبادت گاہ،

وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللہِ

اللہ کے فرشتوں کی جائے نماز،

وَ مَھْبِطُ وَحْیِ اللہِ

اللہ کی طرف سے وحی نازل ہونے کی بارگاہ،

وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائِ اللہِ ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ حکمت: ۱۳۱)

اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اخروی زندگی کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی کرنا ایک لہو ہے۔

۲۔ اخروی زندگی کے لیے دنیا کی زندگی کرنا ہی مقصد زندگی ہے۔


آیت 32