آیت 33
 

قَدۡ نَعۡلَمُ اِنَّہٗ لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ لَا یُکَذِّبُوۡنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ہمیں علم ہے کہ ان کی باتیں یقینا آپ کے لیے رنج کا باعث ہیں، پس یہ صرف آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم لوگ درحقیقت اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

قَدۡ نَعۡلَمُ: رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی مل رہی ہے کہ مکہ کے بت پرستوں کی طرف سے آپؐ کی اہانت ہو رہی ہے، آپؐ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، آپؐ کی تضحیک کر رہے ہیں، یہ دراصل آپؐ کی نہیں، یہ اللہ کی تکذیب ہے۔ آپ ؐ تو اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ پیغام اللہ کا ہے۔ یہ لوگ آپؐ کی ذات کی نہیں بلکہ اس پیغام کی تکذیب کر رہے ہیں۔

واقعہ بھی یہی ہے کہ مشرکین مکہ میں سب سے زیادہ رسولؐ کے جانی دشمن بھی آپؐ کے امین اور صادق القول ہونے کے معترف تھے۔ وہ اپنی خلوتوں میں محمدؐ کی صداقت کا اعتراف کرتے اور تکذیب رسولؐ کی یہ توجیہ پیش کرتے تھے کہ اگر لواء، سقایت الحاج اور نبوت سب بنی قصی کو مل گئے تو قریش کے لیے باقی کیا رہ گیا۔

لَیَحۡزُنُکَ: تکذیب کی وجہ سے رنجیدہ خاطر ہونا اول تو ایک قدرتی بات ہے، دوسری بات، یہ رسولؐ کی صداقت کی دلیل ہے کہ سچے کی تکذیب ہو جائے تو سچا رنجیدہ ہوتا ہے، جب کہ جھوٹے کی تکذیب ہو جائے تو وہ شرمندہ ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ جس طرح فعل رسولؐ کبھی فعل خدا قرار پاتا ہے: وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۱۷ اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں۔) اسی طرح تکذیب رسولؐ تکذیب خدا قرار پاتی ہے۔


آیت 33