وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ ؕ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَہٗ بِالۡاَحۡقَافِ وَ قَدۡ خَلَتِ النُّذُرُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖۤ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کیجیے جب انہوں نے احقاف (کی سرزمین) میں اپنی قوم کو تنبیہ کی اور ان سے پہلے اور بعد میں بھی تنبیہ کرنے والے گزر چکے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

21۔ احقاف جمع ہے حقف کی۔ حقف ریت کے اس بلند و بالا ڈھیر کو کہتے ہیں جو ہواؤں کی وجہ سے جمع ہوتے ہیں۔ صحرائے عرب کے جنوب مغربی علاقے کوالاحقاف کہتے ہیں۔ آج کل یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے۔ممکن ہے ہزاروں سال قبل یہ علاقہ نہایت سرسبز علاقہ رہا ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نجد، احساء، حضر موت اور عمان کا درمیانی علاقہ احقاف کا علاقہ تھا۔

قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَاۡفِکَنَا عَنۡ اٰلِہَتِنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ وہ کہنے لگے: کیا تم ہمیں ہمارے معبودوں سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس آئے ہو؟ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔

قَالَ اِنَّمَا الۡعِلۡمُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۫ۖ وَ اُبَلِّغُکُمۡ مَّاۤ اُرۡسِلۡتُ بِہٖ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ انہوں نے کہا: (اس کا) علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور جس پیغام کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک نادان قوم ہو۔

فَلَمَّا رَاَوۡہُ عَارِضًا مُّسۡتَقۡبِلَ اَوۡدِیَتِہِمۡ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا عَارِضٌ مُّمۡطِرُنَا ؕ بَلۡ ہُوَ مَا اسۡتَعۡجَلۡتُمۡ بِہٖ ؕ رِیۡحٌ فِیۡہَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ پھر جب انہوں نے عذاب کو بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے: یہ تو ہمیں بارش دینے والا بادل ہے، (نہیں) بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تمہیں عجلت تھی (یعنی) آندھی جس میں ایک دردناک عذاب ہے،

24۔ العارض بادل کو کہتے ہیں۔ قوم ہود نے جب گہرا بادل آتے دیکھا تو وہ کہنے لگے: یہ بادل ہماری وادی کو سیراب کرنے کے لیے آ رہا ہے۔ لیکن یہ وہ عذاب تھا جس کے بارے میں وہ حضرت ہود علیہ السلام سے کہتے رہتے تھے: اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب کیوں نہیں آتا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔

تُدَمِّرُ کُلَّ شَیۡءٍۭ بِاَمۡرِ رَبِّہَا فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دے گی، پھر وہ ایسے ہو گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، مجرم قوم کو ہم اس طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰہُمۡ فِیۡمَاۤ اِنۡ مَّکَّنّٰکُمۡ فِیۡہِ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ سَمۡعًا وَّ اَبۡصَارًا وَّ اَفۡـِٕدَۃً ۫ۖ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُہُمۡ وَ لَاۤ اَفۡـِٕدَتُہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِذۡ کَانُوۡا یَجۡحَدُوۡنَ ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اور بتحقیق انہیں ہم نے وہ قدرت دی جو قدرت ہم نے تم لوگوں کو نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور قلب عطا کیے تو جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو نہ ان کی سماعت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی ان کی بصارت نے اور نہ ان کے قلوب نے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اسی چیز کے نرغے میں آ گئے۔

26۔ مال و دولت اور وسیع اقتدار کے لحاظ سے احقاف والے مکہ والوں سے کہیں زیادہ مضبوط تھے۔

سماعت اور بصارت عقل کے لیے آلہ کار ہیں اور جب عقل پر خواہشات اور دیگر منفی عوامل غالب آ جاتے ہیں تو یہ آلہ کار اپنے مقاصد کو پورا نہیں کر پاتے۔ آواز تو کانوں میں جاتی ہے اور نقش آنکھوں میں آ جاتا ہے، لیکن ان سے دل یعنی عقل حقائق کو درک نہیں کر پاتی۔

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا مَا حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡقُرٰی وَ صَرَّفۡنَا الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے گرد و پیش کی بستیوں کو تباہ کر دیا اور ہم نے (اپنی) نشانیوں کو بار بار ظاہر کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔

27۔ جن قوموں پر اپنے رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے تباہی آئی ہے، وہ تمہارے قریبی علاقوں میں آباد تھیں۔ جزیرۃ العرب کے جنوب میں احقاف اور شمال میں ثمودی قوم آباد تھی۔ سبا کی قوم تمہارے نزدیک یمن میں بستی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم مدین میں تمہارے شام جانے کے راستے میں آباد تھی اور قوم لوط بھی۔

وَ صَرَّفۡنَا الۡاٰیٰتِ : ہم نے اپنی نشانیوں کو مختلف شکل میں ظاہر کر کے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے ہدایت کا ہر وسیلہ استعمال کیا۔

فَلَوۡ لَا نَصَرَہُمُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ قُرۡبَانًا اٰلِـہَۃً ؕ بَلۡ ضَلُّوۡا عَنۡہُمۡ ۚ وَ ذٰلِکَ اِفۡکُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ پس انہوں نے قرب الٰہی کے لیے اللہ کے سوا جنہیں اپنا معبود بنا لیا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور وہ بہتان جو وہ گھڑتے تھے۔

28۔ جن غیر اللہ کو ان لوگوں نے قرب الٰہی کے لیے وسیلہ بنایا تھا، آج قیامت کی ہولناکیوں میں ان کی مدد کیوں نہیں کی؟ مدد کیا کرتے، وہ تو ناپید ہیں۔

وَ ذٰلِکَ اِفۡکُہُمۡ حذف مضاف ہو سکتا ہے۔ یعنی وَ ذٰلِکَ اِفۡکُہُمۡ ، یہ ان کے بہتان کا برا نتیجہ ہے۔ آج ان کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔

29۔ ان آیات کے شان نزول میں مذکور ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائف کا سفر اختیار فرمایا کہ شاید کوئی اس دعوت کو قبول کر ے، لیکن کسی نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول نہ کی۔ واپسی کے موقع پر وادی نخلہ کی ایک منزل میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیام فرمایا۔ وہاں نماز میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن کی تلاوت فرمائی۔ جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاوت کی آواز سن کر وہ رک گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو۔ تلاوت سننے کے بعد وہ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔

قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

30۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنات ادیان سماوی سے واقف تھے، خاص طور پر دین موسیٰ علیہ السلام سے۔