آیت 27
 

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا مَا حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡقُرٰی وَ صَرَّفۡنَا الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے گرد و پیش کی بستیوں کو تباہ کر دیا اور ہم نے (اپنی) نشانیوں کو بار بار ظاہر کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا مَا حَوۡلَکُمۡ: خطاب مشرکین مکہ سے کہ ہم نے تمہارے گرد و پیش میں موجود بہت بستیوں کو نابود کیا۔ اس نابودی اور دیگر قوموں کی نابودی کا ذکر اس سے پہلے کی آیات میں آ گیا ہے۔ ان میں سے ایک احقاف میں موجود بستیاں ہیں۔ ان بستیوں کا علم اہل مکہ کوبھی تھا۔

بعض اہل تحقیق مَا حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡقُرٰی سے مراد ہمارے نظام شمسی میں موجود دیگر کرات لیتے ہیں یعنی زہرہ مریخ وغیرہ۔ وہ کہتے ہیں:

جیسے آج ہماری موجودہ زمین والوں کو جس عذاب سے متنبہ کیاجا رہا ہے وہ سابق ہی میں مریخ وغیرہ کی زمینوں پر بعینہ نازل ہو بھی چکا ہے۔ وہاں ماضی میں جاری و ساری تہذیب و تمدن کاکوئی نشان تک باقی نہیں رہ سکا۔ (مولانا سعید الرحمن ماہنامہ الحق شمارہ ستمبر۲۰۰۹)

لیکن یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے کہ دیگر کرہ ہائے آسمانی کو الۡقُرٰی (بستیوں) سے تعبیر کیا جائے اور عربی بدوؤں کو ایسے حقائق کا مخاطب قرار دیا جائے جو ان کے لیے تو دور کی بات ہیں، آج بھی لوگوں کے لیے قابل خطاب نہیں ہیں۔ جن کی تباہی کا علم نہ ہو وہ ان کے لیے نشان عبرت کیسے بنے؟


آیت 27