آیت 29
 

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔

تفسیر آیات

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابن عباس اور سعید بن جبیر کی روایت ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف کے لوگوں سے ناامید ہو کر واپس مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپؐ بطن نخلۃ نامی جگہ فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اس وقت وہاں سے جنات کے ایک قافلے کا گزر ہوا تو انہوں نے قرآن کی تلاوت سنی۔

۱۔ وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ: جنوں کے اس گروہ کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں۔

۲۔ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بعض کے نزدیک حَضَرُوۡہُ کی ضمیر قرآن کی طرف ہے۔

۳۔ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا: آپس میں کہنے لگے خاموش رہو۔ یعنی خاموشی اور توجہ سے اس کلام کو سنو۔ قرآن کے کلمات اور لہجۂ رسول نے ان کی توجہ مبذول کی کہ یہ کوئی معمولی کلام نہیں ہے۔

۴۔ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ: جب تلاوت ختم ہو گئی اور معلوم ہوا یہ مخلوق کا کلام نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی قوم کی طرف مبلغ بنا کر روانہ فرمایا۔


آیت 29