وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰہُمۡ فِیۡمَاۤ اِنۡ مَّکَّنّٰکُمۡ فِیۡہِ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ سَمۡعًا وَّ اَبۡصَارًا وَّ اَفۡـِٕدَۃً ۫ۖ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُہُمۡ وَ لَاۤ اَفۡـِٕدَتُہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِذۡ کَانُوۡا یَجۡحَدُوۡنَ ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اور بتحقیق انہیں ہم نے وہ قدرت دی جو قدرت ہم نے تم لوگوں کو نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور قلب عطا کیے تو جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو نہ ان کی سماعت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی ان کی بصارت نے اور نہ ان کے قلوب نے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اسی چیز کے نرغے میں آ گئے۔

26۔ مال و دولت اور وسیع اقتدار کے لحاظ سے احقاف والے مکہ والوں سے کہیں زیادہ مضبوط تھے۔

سماعت اور بصارت عقل کے لیے آلہ کار ہیں اور جب عقل پر خواہشات اور دیگر منفی عوامل غالب آ جاتے ہیں تو یہ آلہ کار اپنے مقاصد کو پورا نہیں کر پاتے۔ آواز تو کانوں میں جاتی ہے اور نقش آنکھوں میں آ جاتا ہے، لیکن ان سے دل یعنی عقل حقائق کو درک نہیں کر پاتی۔