وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ کَانَ خَیۡرًا مَّا سَبَقُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ ؕ وَ اِذۡ لَمۡ یَہۡتَدُوۡا بِہٖ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَاۤ اِفۡکٌ قَدِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جو لوگ کافر ہو گئے وہ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں: اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف جانے میں ہم سے سبقت نہ کر جاتے اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہ پائی اس لیے وہ کہیں گے: یہ تو (وہی) پرانا جھوٹ ہے۔

11۔ قریش کے مشرکین اپنے آپ کو خیر و شر کا محور قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر قرآن کو تسلیم کر لینا اچھا کام ہوتا تو ہم سب سے پہلے اسے مان لیتے۔ چونکہ ہم نے نہیں مانا ہے، لہٰذا یہ خیر نہیں ہے۔ صرف چند نچلے درجے کے لوگوں نے اسے مانا ہے۔

وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت تھی اور یہ (قرآن) ایسی کتاب ہے جو عربی زبان میں (کتاب موسیٰ کی) تصدیق کرنے والی ہے تاکہ ظالموں کو تنبیہ کرے اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے پھر استقامت دکھائی، ان کے لیے یقینا نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

13۔ سورہ حٰمٓ سجدہ میں فرمایا: جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر استقامت دکھائی، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ اس آیت میں فرمایا: ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم۔ معلوم ہوا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان کو خوف و غم بھی نہیں ہے۔

اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ یہ لوگ جنت والے ہوں گے (جو) ہمیشہ اسی میں رہیں گے ان اعمال کے صلے میں جو وہ بجا لایا کرتے تھے۔

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

15۔ قرآن کی متعدد آیات میں اولاد کے لیے حکم آیا ہے کہ ماں اور باپ دونوں پر احسان کرنا چاہیے۔ اس آیت میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ماں کا حق زیادہ ہے، کیونکہ ماں نے بڑی مشقتوں کے ساتھ اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا، بڑی مشقتوں کے ساتھ اس کو جنا اور دو سال تک اسے دودھ پلایا۔ اس آیت میں باپ کا ذکر ایک بار اور ماں کا ذکر تین بار آیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سائل کے سوال کے جواب میں تین بار ماں کے حق کا ذکر فرمایا: سورہ بقرہ آیت 233 میں فرمایا: مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں اور سورہ لقمان آیت 14 میں فرمایا: دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے۔ اس آیت میں فرمایا: اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت تیس (30) مہینے ہے۔ تیس مہینوں میں سے چوبیس مہینے رضاعت کے نکال دیے جائیں تو حمل کی مدت چھ مہینے رہ جاتی ہے۔ چنانچہ فقہ جعفری کے مطابق حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ ان آیات سے استدلال کر کے حضرت علی علیہ السلام نے مدت حمل چھ ماہ قرار دی تو حضرت عثمان نے اپنا وہ فیصلہ بدل دیا جس میں انہوں نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے ہاں شادی کے چھ ماہ بعد صحیح و سالم بچہ پیدا ہوا تھا۔ (جصاص۔ ابن کثیر)

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ نَتَقَبَّلُ عَنۡہُمۡ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ نَتَجَاوَزُ عَنۡ سَیِّاٰتِہِمۡ فِیۡۤ اَصۡحٰبِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَعۡدَ الصِّدۡقِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کے گناہوں سے درگزر کرتے ہیں، (یہ) اہل جنت میں شامل ہوں گے اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے۔

وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے) کہتے تھے: تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر (بھی) وہ کہتا ہے: یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔

17۔ دو کرداروں اور دو مختلف اقدار کے مالکوں کا ذکر ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کا مالک انسان اپنے والدین اور اپنے پروردگار کے ساتھ اس طرح خوبی سے پیش آتا ہے اور جو انسانی قدروں کا حامل نہیں ہے اس کا کردار اپنے والدین اور اپنے رب کے ساتھ منفی ہوتا ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں بے شک یہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔

وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ۚ وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ہیں تاکہ انہیں ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

19۔ یعنی مذکورہ بالا دونوں کرداروں کو اپنے کردار کے حساب سے جزا یا سزا دی جائے گی۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔

وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ : ان کو ان کے اعمال پورے کر دیے جائیں گے، یعنی ان کو ان کے اعمال بغیر کمی بیشی کے پورے کر کے دے دیے جائیں گے۔ خود اعمال پورے کر کے دینے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ انسانی اعمال پر اللہ تعالیٰ جزا اور سزا مرتب نہیں کرے گا، بلکہ خود اعمال جزا اور سزا بن کر سامنے آئیں گے، لیکن آیت سے عام مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ چنانچہ ہم نے ترجمے میں یہی عام مفہوم اختیار کیا ہے۔ تاہم ہم نے پہلے بھی اس نظریے کا ذکر کیا ہے: انسانی عمل ایک مرتبہ وجود میں آتا ہے۔ اس کو دوام ملتا ہے اور انرجی کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ عین ممکن ہے قیامت کے دن انسان کو اس کے عمل کا سامنا کرنا پڑے۔ یعنی خود عمل جزا و سزا بن جائے، جیسا کہ اس آیت کا ظاہری معنی ہے۔

وَ یَوۡمَ یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا ۚ فَالۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَفۡسُقُوۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم نے اپنی نعمتوں کو دنیاوی زندگی میں ہی برباد کر دیا اور ان سے لطف اندوز ہو چکے، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا اس لیے دی جائے گی کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے رہے اور بدکاری کرتے رہے۔

20۔ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ : تم نے اپنے نعمتوں کو برباد کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے وافر نعمتیں مقرر کر رکھی ہیں اور عذاب کا سامان بھی مہیا کر رکھا ہے۔ کل قیامت کے دن جہنمیوں کو آتش جہنم کے سامنے لایا جائے گا، ان سے کہا جائے گا: تم نے اپنے حصے کی نعمتوں کو دنیا کی زندگی میں برباد کر دیا۔ آج تمہارے حصے کا عذاب باقی ہے۔