یٰقَوۡمَنَاۤ اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُجِرۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ کہ اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔

31۔ اللہ کی طرف بلانے والے سے مراد رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ : ایمان لانے پر کفر کی حالت میں سرزد ہونے والے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۔ (انفال:38) اگر یہ لوگ (شرک سے) باز آ جائیں تو گزشتہ گناہ معاف کر دے گا۔

وَ مَنۡ لَّا یُجِبۡ دَاعِیَ اللّٰہِ فَلَیۡسَ بِمُعۡجِزٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَیۡسَ لَہٗ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءُ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کرتا وہ زمین میں (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی سرپرست بھی نہیں ہو گا، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ لَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا ہے اور جو ان کے خلق کرنے سے عاجز نہیں آیا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ ہاں! وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔

33۔ وَ لَمۡ یَعۡیَ : العی عاجز ہونے اور تھک جانے کے معانی بتائے جاتے ہیں۔ ہم نے عاجز ہونے کے معنی مراد لیے ہیں۔ چونکہ مشرکین حیات بعد موت کے امکان کے قائل نہ تھے، یعنی اللہ کو عاجز تصور کرتے تھے۔ جو لوگ العی کو تھکاوٹ کے معنی میں لیتے ہیں، وہ کہتے اس سے یہود کی رد مراد ہے، جو کہتے ہیں: خدا چھ دنوں میں کائنات کی تخلیق کے بعد تھک گیا تھا۔ یہ معنی سیاق آیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، چونکہ اس آیت میں مشرکین کی رد پر بات ہو رہی ہے، اہل کتاب کے کسی عقیدے کی رد کے درپے نہیں ہے۔

وَ یَوۡمَ یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَلَیۡسَ ہٰذَا بِالۡحَقِّ ؕ قَالُوۡا بَلٰی وَ رَبِّنَا ؕ قَالَ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (اس وقت ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ برحق نہیں ہے؟ وہ کہیں گے: ہاں! ہمارے رب کی قسم (یہ حق ہے) اللہ فرمائے گا : پھر عذاب چکھو اپنے اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ۙ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿٪۳۵﴾ ۞ٙ

۳۵۔ پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے (طلب عذاب میں) جلدی نہ کیجیے، جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں محسوس ہو گا گویا (دنیا میں دن کی) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، (یہ ایک) پیغام ہے، پس وہی لوگ ہلاکت میں جائیں گے جو فاسق ہیں۔

35۔ اگر چہ تمام انبیاء اپنے مقام پر عزم و حوصلہ کے مالک تھے، تاہم جن انبیاء کو شریعت دی گئی ہے، انہیں اولو العزم انبیا ء کہتے ہیں۔ وہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت خاتم الانبیاء محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔