آیت 21
 

وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ ؕ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَہٗ بِالۡاَحۡقَافِ وَ قَدۡ خَلَتِ النُّذُرُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖۤ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کیجیے جب انہوں نے احقاف (کی سرزمین) میں اپنی قوم کو تنبیہ کی اور ان سے پہلے اور بعد میں بھی تنبیہ کرنے والے گزر چکے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ: ہود کا ذکر کیجیے۔ حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد ہی کا ایک فرد تھے۔ اس لیے انہیں اَخَا عَادٍ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

۲۔ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَہٗ بِالۡاَحۡقَافِ: ہود علیہ السلام کو الۡاَحۡقَافِ کی باشندہ قوم کی طرف مبعوث کیا گیا۔ الۡاَحۡقَافِ، حۡقَفِ کی جمع ہے۔ لغت میں ریت کے لمبے اور اونچے ٹیلوں کو کہتے ہیں جو ہواؤں کی وجہ سے بنتے ہوتے ہیں۔

صحرائے عرب کے جنوب مغربی علاقے کو الۡاَحۡقَافِ کہتے ہیں۔ ممکن ہے ہزاروں سال قبل یہ علاقہ نہایت سرسبزرہا ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضر موت اورعمان کا درمیانی علاقہ احقاف کا علاقہ ہے۔ کہتے ہیں اس علاقے کی ریت اس قدر باریک ہے کہ اس میں کوئی چیز گر جائے تو وہ ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بوسیدہ ہو جاتی ہے۔ اسی لیے یہ علاقہ اس قدر خوفناک ہے کہ وہاں جانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ بنا بر قولے یہی علاقہ وادی برہوت ہے۔ ایک روایت میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے الۡاَحۡقَافِ سے آنے والے ایک اعرابی سے فرمایا:

ان من ورائکم لوادیا یقال البرھوت تسکنہ البوم و الھام یعذب فیہ ارواح المشرکین۔۔۔۔ (بحار الانوار ۶۱: ۳۳۱ )

تمہارے علاقے کے پیچھے ایک وادی ہے جسے برہوت کہتے ہیں جہاں کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں جو مشرکین کی ارواح کو عذاب دیتے ہیں۔

ایک حدیث نبوی میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَ خَیْرُ مَائٍ عَلَی وَجْہِ الْاَرْضِ مَائُ زَمْزَمَ وَ شَرُّ مائٍ عَلَی وَجْہِ الْاَرْضِ مَائُ بَرَھُوتَ وَ ھُوَ وَادٍ بِحَضْرَمَوْتَ یَرِدُ عَلَیْہِ ھَامُ الْکُفَّارِ وَ صَدَاھُمْ۔ (الکافی ۳: ۲۴۶)

روئے زمین پر بہترین پانی زم زم کا پانی ہے اور روئے زمین پر بد ترین پانی برہوت کا پانی ہے۔ یہ پانی حضر موت کے علاقے میں کفار کی کھوپڑیوں اور دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔

۲۔ وَ قَدۡ خَلَتِ النُّذُرُ: النُّذُرُ نذیر کی جمع ہے۔ یعنی الۡاَحۡقَافِ کے علاقوں میں بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں۔

۳۔ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖۤ: کچھ انبیاء علیہم السلام حضرت ہود علیہ السلام سے پہلے اور بعد گزرے ہیں۔ خَلَتِ کی تعبیر وقت نزول قرآن کے اعتبار سے ہے لہٰذا وَ مِنۡ خَلۡفِہٖۤ اور خَلَتِ میں کوئی منافات نہیں ہے۔

۴۔ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ: ہود اور تمام انبیاء علیہم السلام جو اس علاقے میں مبعوث ہوئے، ایک دعوت لے کر آئے۔ وہ یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور غیر اللہ کی بندگی ترک کرو۔

۴۔ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ: یوم عظیم کے عذاب سے مراد قیامت کے دن کا عذاب ہے جس سے غیر اللہ کی عبارت کرنے والے دوچار ہوں گے۔


آیت 21