آیت 26
 

وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰہُمۡ فِیۡمَاۤ اِنۡ مَّکَّنّٰکُمۡ فِیۡہِ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ سَمۡعًا وَّ اَبۡصَارًا وَّ اَفۡـِٕدَۃً ۫ۖ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُہُمۡ وَ لَاۤ اَفۡـِٕدَتُہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِذۡ کَانُوۡا یَجۡحَدُوۡنَ ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اور بتحقیق انہیں ہم نے وہ قدرت دی جو قدرت ہم نے تم لوگوں کو نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور قلب عطا کیے تو جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو نہ ان کی سماعت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی ان کی بصارت نے اور نہ ان کے قلوب نے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اسی چیز کے نرغے میں آ گئے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰہُمۡ: اہل مکہ سے خطاب ہے: احقاف والوں کو ہم نے وہ قدرت، اقتدار اور مال و دولت دی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ احقاف والے ایک اہم تمدن کے مالک تھے۔ تم گدلا پانی پینے والے ہو۔

۲۔ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ سَمۡعًا: ہم نے احقاف والوں کو حق شناسی کے تمام اوزار فراہم کیے۔ سماعت اور بصارت، عقل کے لیے آلۂ کار ہیں اور جب عقل پر خواہشات و دیگر منفی عوامل غالب آ جاتے ہیں تو یہ آلۂ کار اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکتے۔ آواز کانوں میں تو جاتی ہے لیکن معانی و مطالب کو عقل وصول نہیں کرتی۔ اسی طرح نقش آنکھوں میں آ جاتا ہے مگر عقل حقائق اپنی گرفت میں نہیں لیتی۔

۳۔ اِذۡ کَانُوۡا یَجۡحَدُوۡنَ ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ: ان حقائق کا ادراک اس لیے نہیں ہو سکا اور ان کی عقل نے کام اس لیے نہیں کیا چونکہ آیات الٰہی کا انکار ان لوگوں نے اپنے ذہنوں میں راسخ کر رکھا تھا جس سے ان کی عقل اندھی ہو گئی تھی۔

اہم نکات

۱۔ عقل اس وقت اپنا کام نہیں کر سکتی جب اس پر کوئی باطل نظریہ مسلط کیا جائے۔


آیت 26