اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیۡعَ فِی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ حُطَامًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر چشمے بنا کر اسے زمین میں جاری کرتا ہے پھر اس سے رنگ برنگی فصلیں اگاتا ہے، پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی ہیں پھر وہ اسے بھوسہ بنا دیتا ہے ؟ عقل والوں کے لیے یقینا اس میں نصیحت ہے۔

21۔ یہ لوگ لہلہاتے کھیتوں پر خزاں آتے روز دیکھتے ہیں، ہر سو اور ہر چیز میں نا پائیداری کا روز مشاہدہ کرتے ہیں، پھر بھی لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، عبرت حاصل نہیں کرتے اور اس چند روزہ نا پائیدار زندگی پر فریفتہ ہو جاتے ہیں۔

اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۲﴾

۲۲۔ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو (سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہو جاتے ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

22۔ جس کا سینہ قبول حق کے لیے آمادہ ہو، اللہ کی طرف سے نیک توفیقات اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں۔ قبول حق کے لیے اس کے قلب میں گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، یعنی باتیں سمجھ میں آنا اور تاریکی چھٹنا شروع ہو جاتی ہے اور فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ اس نور کی وجہ سے بہت سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں قبول حق کے لیے کوئی آمادگی نہیں ہے، یعنی ان کے دلوں پر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اللہ نے ایسی کتاب کی شکل میں بہترین کلام نازل فرمایا ہے جس کی آیات باہم مشابہ اور مکرر ہیں جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہو کر ذکر خدا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

23۔ مُّتَشَابِہًا : اول سے لے کر آخر تک قرآن کے مختلف موضوعات کے مضامین باہم مربوط اور ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، منافی اور متضاد نہیں ہیں۔

مَّثَانِیَ : اس کے مضامین دھرائے گئے ہیں تاکہ قرآنی مطالب ذہنوں میں راسخ ہو جائیں۔ کسی بھی مطلب کو ذہن میں راسخ کرنے کے لیے دھرانے کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لیے تعلیم و تربیت میں دھرائی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

تَقۡشَعِرُّ : جن کے دل خوف خدا سے معمور ہوتے ہیں، وہ جب قرآنی آیات سنتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے اثرات شعور و وجدان پر مترتب ہوتے ہیں اور دل میں سکون و آرام آتا ہے۔ جن کے دل خوف خدا کی نعمت سے محروم ہیں، وہ غنا کی طرز کے اشعار سن کر وجد میں آتے ہیں اور قرآن سے ان کے دل دور بھاگتے ہیں۔

اَفَمَنۡ یَّتَّقِیۡ بِوَجۡہِہٖ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ قِیۡلَ لِلظّٰلِمِیۡنَ ذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ کیا وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے منہ کو سپر بناتا ہے (وہ امن پانے والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا: چکھو اس کا ذائقہ جو تم کماتے تھے۔

کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَاَتٰىہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ ان سے پہلوں نے تکذیب کی تو ان پر ایسی جگہ سے عذاب آیا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

فَاَذَاقَہُمُ اللّٰہُ الۡخِزۡیَ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ پھر اللہ نے انہیں دنیاوی زندگی میں رسوائی کا ذائقہ چکھا دیا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے، اے کاش! وہ جان لیتے۔

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

27۔ قرآن میں اپنے مطالب لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام طرز بیان استعمال فرمائے ہیں: دھرائی، مثالوں، محسوسات اور مسلمات کے ذریعے مطالب بیان ہوئے ہیں، خصوصاً مثالوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے، کیونکہ ایک فکری مطلب کو محسوس چیز کی شکل میں لانے سے مطلب واضح ہو جاتا ہے اور انسان محسوسات سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔

قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ ایسا قرآن جو عربی ہے، جس میں کوئی عیب نہیں ہے تاکہ یہ تقویٰ اختیار کریں۔

28۔ قرآن عربی زبان میں ہے اور جس رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، وہ عربی ہے اور جس قوم پر اس دعوت کی بنیاد رکھی ہے، وہ قوم عربی ہے۔ وہ قوم اس دعوت کو عالمین تک پہنچانے کے لیے اساس قرار پاتی ہے، نہ یہ کہ دین اسی قوم تک محدود رہ جائے۔

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ۚ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اللہ ایک شخص (غلام) کی مثال بیان فرماتا ہے جس (کی ملکیت) میں کئی بدخو (مالکان) شریک ہیں اور ایک(دوسرا) مرد (غلام) ہے جس کا صرف ایک ہی آقا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ الحمد للہ،بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔

اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾

۳۰۔ (اے رسول) یقینا آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور انہیں بھی یقینا مرنا ہے۔

30۔ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس میں دو نکات کی طرف اشارہ ہے: اول رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس دنیا سے جانے سے یہ مشن ختم نہیں ہو گا، جیسا کہ مشرکین اس انتظار میں ہیں۔ دوم اس دنیا سے جانے کے بعد مشرک مومن ظالم مظلوم کا مقدمہ اللہ کے حضور پیش ہو گا۔