قرآن کا اسلوب بیان


اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔

46۔ واضح رہے کہ قرآن ادب و محاورہ کی زبان میں بات کرتا ہے، چنانچہ وہ اسی محاورہ کے تحت خود اپنی ذات کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر کرتا ہے بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ یُنۡفِقُ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ (مائدہ: 64) اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے انفاق کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی محاورہ ہے کہ بات میرے دل میں ہے، یہ راز میرے سینے میں ہے اور سینہ بہ سینہ بھی ایک محاورہ ہے، ورنہ نہ تو اللہ کے لیے دو ہاتھ ہیں، نہ ہی سوچنے کا کام دل سے لیا جاتا ہے اور نہ راز سینے میں ہوتے ہیں، یہ سب سائنسی اعتبار سے دماغ کا کام ہے، مگر محاورۃً دل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ہے لہٰذا آپ اس (قرآن) کے ملنے میں کسی شبہے میں نہ رہیں اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت(کا ذریعہ) بنایا۔

23۔ یہ قرآن کا طرز خطاب ہے کہ جسے بہت زیادہ اہمیت دینا مقصود ہو وہاں خطاب براہ راست رسول ﷺ سے ہوتا ہے اور بتانا دوسروں کو مقصود ہوتا ہے۔ لِّقَآئِہٖ میں ضمیر الۡکِتٰبَ کی طرف ہے اور لِقَآءَ تَلَقِّی کے معنوں میں ہے، جیسے کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا میں ہے۔ یعنی ہم نے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی ہے، آپ ﷺ کو بھی کتاب دی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کو اس کتاب (قرآن) کے ملنے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس لیے ہوا کہ رسالتمآبﷺ کے ساتھ آپ علیہ السلام کی بہت سی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

27۔ قرآن میں اپنے مطالب لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام طرز بیان استعمال فرمائے ہیں: دھرائی، مثالوں، محسوسات اور مسلمات کے ذریعے مطالب بیان ہوئے ہیں، خصوصاً مثالوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے، کیونکہ ایک فکری مطلب کو محسوس چیز کی شکل میں لانے سے مطلب واضح ہو جاتا ہے اور انسان محسوسات سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔