یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (خطرات سے) بچاؤ کرو۔

21۔ ربوبیت کے ادراک کے بعد عبودیت ہے اور جب انسان اپنے آپ کو مخلوق سمجھتا ہے تو اپنے خالق کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر ہے۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ۔

22۔ جَعَلَ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نہیں تھا، بعد میں بنایا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زمین پہلے قابل سکونت نہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے قابل بنایا۔ بچھونے کی تعبیر اختیار کرنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس میں آرام و آسائش کے تمام وسائل فراہم ہیں۔ نہ تو اسے زیادہ سخت بنایا کہ دانہ اگ نہ سکے اور نہ ہی اسے اتنا نرم بنایا کہ چیزیں اس میں دھنس جائیں، نہ اتنی چھوٹی بنائی کہ آکسیجن کے ذرات فضا میں زمین سے منسلک نہ رہ سکیں، نہ اتنی بڑی بنائی کہ ہوائی ذرات فضا میں معلق نہ رہ سکیں۔

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اگر تم لوگوں کو اس(کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

23۔ انسانیت کی بلوغت سے پہلے انبیاء کو محسوس معجزے دیے گئے اور لوگوں کی فکری سطح کے مطابق محسوسات کے ذریعے ان کی تربیت ہوئی۔ انسانی فکر کے حد بلوغت تک پہنچنے کے بعد ایک فکری اور مکمل دستور حیات پر مشتمل معجزہ قرآن کی شکل میں دیا گیا۔سابقہ محسوس معجزات کی طرح یہ معجزہ کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک ابدی معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ آج کے محسوس پرستوں کا یہ اعتراض کہ رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی محسوس معجزہ پیش نہیں کیا، ایسا ہے جیسے کوئی کسی تعلیمی ادارے پر یہ اعتراض کرے کہ ہائی سکول کے لیے نرسری کلاس کا طرز تعلیم کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔ البتہ رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانے کے محسوس پرستوں کے لیے محسوس (حسیاتی) معجزات بھی دکھائے ہیں۔

کیا معجزات طبیعیاتی قوانین کے دائرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں یا طبیعیاتی قانون کی عام دفعات کے ماوراء میں ہوتے ہیں، اس پر ہم آئندہ بحث کریں گے۔

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور ہرگز تم ایسا نہ کر سکو گے تو اس آتش سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (یہ آگ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میں پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

25۔ ایمان و عمل کے بارے میں تین صورتیں سامنے آتی ہیں: 1۔ ایمان بلا عمل 2۔ عمل بلا ایمان 3۔ ایمان باعمل۔ پہلی صورت میں وہ ایمان جو انسان کے شعور و کردار پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا ایمان نہیں ہے۔ دوسری صورت میں اس عمل میں حسن پیدا نہیں ہو سکتا جس کے انجام دینے والے میں حسن نہ ہو نیز ایمان نہ ہونے کی صورت میں جو عمل انجام دیا جاتا ہے تو اس کا محرک کیا ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جو لوگ رفاہی کام انجام دیتے ہیں، اگر ان کے اعمال کا محرک ایمان باللہ کے علاوہ کوئی اور عقیدہ ہو تو ان کا ثواب بھی اسی کے ذمے ہے جس کے لیے انہوں نے یہ عمل انجام دیا ہے۔ تیسری صورت ہی ذریعہ نجات ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔

جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مشابہ ضرور ہیں لیکن درحقیقت ان سے جدا ہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں تکرار ہے۔ یعنی ایک چیز کئی بار کھائیں تو ہر مرتبہ وہی لذت ملتی ہے، جبکہ جنت میں ہر مرتبہ نئی لذت اور نیا ذائقہ ہو گا ہر چند کہ پھل ملتے جلتے دیے جائیں گے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔اللہ کسی مثال کے پیش کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (چھوٹی چیز کی)، پس جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ (مثال) ان کے رب کی جانب سے برحق ہے، لیکن کفر اختیار کرنے والے کہتے رہیں گے کہ اس مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے، اللہ اس سے بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف بداعمال لوگوں کو گمراہی میں ڈالتا ہے۔

26۔ مچھر یا اس سے بھی کمتر مخلوقات خالق کی عظمت پر اسی طرح دلالت کرتی ہیں جس طرح بڑی مخلوقات۔ اس چھوٹی مخلوق میں بھی اعضاء و جوارح اور اعصاب و دماغ وغیرہ کا ایک جامع نظام موجود ہے۔

الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ جو (فاسقین) اللہ کے ساتھ محکم عہد باندھنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس (رشتے) کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اسے قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو؟ حالانکہ تم بے جان تھے تو اللہ نے تمہیں حیات دی، پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر(آخرکار) وہی تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

28۔ زمین پر زندگی کی ابتداء کیسے اور کیونکر ہوئی؟ ایک سربستہ راز اور پر اسرار حقیقت ہے۔ حال ہی میں انسان کی رسائی ڈی این اے کے سالموں تک ہو گئی ہے اور سائنسدان اس میں موجود تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ تمام زندہ موجودات کے لیے جبلی ہدایات اللہ تعالیٰ نے خلیات (cells) کے مرکزی حصے D.N.A. میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب چھوٹے سالموں پر مشتمل ہے اور حیات کا راز انہیں سالموں میں پوشیدہ ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

29۔ الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان مخدومِ کائنات ہے۔ وہ بندﮤ زر نہیں، نہ ہی اقتصادی عوامل اور پیداواری وسائل کا غلام ہے۔ خدائی انسان کو یہ خطاب ملتا ہے: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب تمہارے لیے مسخر کیا گیا ہے۔(45: 13) اس آیت سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون ملتا ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

30۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ روئے زمین پر ایک مکلف مخلوق امتحان و آزمائش کے لیے بھیجی جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احسن عمل کا امتیازی نشان کون حاصل کرتا ہے۔ پھر حکمت و رحمت الہٰی کا تقاضا یہ ہوا کہ اس مخلوق کے بسنے سے پہلے اس کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متضاد صفات والی اس مخلوق کو علم و قابلیت دینے کی راہ میں اگرچہ فساد و خون خرابہ ہو، تب بھی علم کی فضیلت اپنی جگہ برقرار ہے۔