دنیوی اور اخروی نعمتوں میں فرق


وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میں پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

25۔ ایمان و عمل کے بارے میں تین صورتیں سامنے آتی ہیں: 1۔ ایمان بلا عمل 2۔ عمل بلا ایمان 3۔ ایمان باعمل۔ پہلی صورت میں وہ ایمان جو انسان کے شعور و کردار پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا ایمان نہیں ہے۔ دوسری صورت میں اس عمل میں حسن پیدا نہیں ہو سکتا جس کے انجام دینے والے میں حسن نہ ہو نیز ایمان نہ ہونے کی صورت میں جو عمل انجام دیا جاتا ہے تو اس کا محرک کیا ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جو لوگ رفاہی کام انجام دیتے ہیں، اگر ان کے اعمال کا محرک ایمان باللہ کے علاوہ کوئی اور عقیدہ ہو تو ان کا ثواب بھی اسی کے ذمے ہے جس کے لیے انہوں نے یہ عمل انجام دیا ہے۔ تیسری صورت ہی ذریعہ نجات ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔

جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مشابہ ضرور ہیں لیکن درحقیقت ان سے جدا ہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں تکرار ہے۔ یعنی ایک چیز کئی بار کھائیں تو ہر مرتبہ وہی لذت ملتی ہے، جبکہ جنت میں ہر مرتبہ نئی لذت اور نیا ذائقہ ہو گا ہر چند کہ پھل ملتے جلتے دیے جائیں گے۔