آیت 25
 

وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میں پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تشریح کلمات

بَشِّرِ:

( ب ش ر ) بشارت۔ وہ خبر جو سننے والے کے لیے خوشی کی باعث ہو۔ اصل میں بشر جلد کو کہتے ہیں۔ چونکہ خوشی کے عالم میں انسانی چہرے کی جلد میں انبساط آ جاتا ہے، اس لیے خوشی کی خبر کو ’’ بشارت‘‘ کہا جاتا ہے۔

جَنّٰتٍ:

( ج ن ن ) جنت کی جمع ہے۔ وہ جگہ جو درختوں سے ڈھکی ہوئی ہو۔ چنانچہ انسانی نظروں سے پوشیدہ رہنے والی مخلوق کو جن کہتے ہیں۔ ڈھال کو جنۃ کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے:

اَلصَّومُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ ۔ {من لا یحضرہ الفقیہ ۲ : ۷۴ باب فضل الصیام}

روزہ آتش جہنم (سے بچنے) کی ڈھال ہے۔

کیونکہ ڈھال اپنے مالک کو نقصان دہ چیزوں سے محفوظ اور پوشیدہ رکھتی ہے۔

تفسیر آیات

قرآن مجید کی بے شمار آیات میں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ہے۔ نجات و فلاح کے لیے اگر ایمان ضروری ہے تو عمل صالح بھی شرط ہے۔ ایمان و عمل کی تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔

۱۔ ایمان بلا عمل۔ ۲۔ عمل بلاایمان۔ ۳۔ ایمان باعمل۔

۱۔ پہلی صورت یعنی ایمان بلا عمل، قرآن مجید کی رو سے نجات کا ذریعہ نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں بھی نعیم جنت اور فلاح آخرت کی نوید سنائی ہے، وہاں ایمان کو عمل صالح سے مشروط کر دیا ہے۔کیونکہ ایمان و ایقان انسان کے ضمیر اور شعور پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر مریض کا ایمان ہو کہ فلاں دوا میرے لیے بہتر ہے تو اس ایمان و یقین کا اثر اس کے شعور پر مرتب ہو گا، جس کے نتیجے میں وہ عمل کرے گا (یعنی دوا استعمال کرے گا)۔ کوئی عاقل ایسا نہیں جو اپنے اس ایمان کا اثر مرتب نہ ہونے دے۔

۲۔ دوسری صورت (عمل بلا ایمان ) معقول ہی نہیں کہ کسی چیز پر ایمان نہ ہو لیکن اس کے باوجود وہ انسان کے ضمیراور شعورپر اثرانداز ہو اور پھر اس کا نتیجہ عمل کی صورت میں ظاہر ہو۔ جس مریض کا علاج پر ایمان ہی نہیں، اس کے ضمیر و شعور پر وہ علاج کبھی اثر انداز نہیں ہو گا کہ اسے عملی صورت انجام دینے کی ضرورت پڑے۔ بنابریں جن لوگوں کا اللہ پر ایمان نہ ہو وہ اس کی اطاعت نہیں کریں گے اور اس صورت میں عمل صالح بجا لانا ممکن ہی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جو لوگ رفاہی کام تو سر انجام دیتے ہیں لیکن اللہ کی خوشنودی کے لیے نہیں، ان کے اعمال کسی اور ایمان و عقیدے کے اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ثواب اللہ کے ذمے نہیں بلکہ اسی کے ذمے ہے، جس کے لیے انہوں نے یہ اعمال انجام دیے ہیں۔

۳۔ تیسری صورت (ایمان باعمل) ذریعہ نجات ہے اور اسی کے لیے قرآن نے بھی جنت کی ابدی نعمتوں کی بشارت دی ہے: وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا لانے والوں کے لیے بہشت کے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ کُلَّمَا رُزِقُوۡا انہیں جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے : یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی ہمیں مل چکا ہے۔ قرآن فرماتا ہے: وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ۔ ’’حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہو گا۔‘‘ بعض محقق مفسرین فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں میں تکرار یعنی یکسانیت نہیں۔ دنیا میں اگر ہم ایک چیز کئی بار کھائیں تو ہر مرتبہ وہی لذت ملے گی جو پہلی بار کھانے سے ملی تھی۔ لیکن جنت میں ہر مرتبہ ایک نئی لذت ملے گی اور نیا ذائقہ محسوس ہو گا۔ ہر چند کہ پھل ملتے جلتے دیے جائیں گے۔

عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے :

ما فی القرآن ایۃ ’’ الذین امنوا و عملوا الصالحت‘‘ الا و علی امیرھا و شریفھا } بحار الانوار ۳۶ : ۱۰۷، باب ۳۹۔ شواہد التنزیل ۱ : ۳۰}

قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس کا عنوان الذین امنوا و عملوا الصالحت ہو مگر یہ کہ علی (ع) اس کے سب سے اولی و شریف ترین مصداق نہ ہوں۔

اہم نکات

۱۔ ایمان اور عمل صالح دونوں کا مجموعی نتیجہ نجات ہے۔

۲۔ غیر اسلامی نظریات کی حامل رفاہی سرگرمیوں کا صلہ اللہ کے ذمے نہیں۔

۳۔ ایمان کی صداقت کو پرکھنے کی واحد کسوٹی عمل صالح ہے۔

تحقیق مزید: الفقیہ۱ : ۸۹۔ الوسائل ۱۶ : ۲۲۱


آیت 25