وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

30۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ روئے زمین پر ایک مکلف مخلوق امتحان و آزمائش کے لیے بھیجی جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احسن عمل کا امتیازی نشان کون حاصل کرتا ہے۔ پھر حکمت و رحمت الہٰی کا تقاضا یہ ہوا کہ اس مخلوق کے بسنے سے پہلے اس کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متضاد صفات والی اس مخلوق کو علم و قابلیت دینے کی راہ میں اگرچہ فساد و خون خرابہ ہو، تب بھی علم کی فضیلت اپنی جگہ برقرار ہے۔