آیت 29
 

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

تشریح کلمات

اسْتَوٰٓى:

( س و ی ) ہر طرف سے احاطہ کرنا اور کسی عمل پر استقرار۔ جب اس لفظ کے ساتھ اِلَى آئے تو اس کا معنی ہے ”خود کسی چیز تک پہنچ جانا“ یا ”اس کا قصد و ارادہ اور تدبیر کرنا“۔ اسی لیے ہم نے اسْتَوٰٓى کا ترجمہ ’’قصد‘‘ کیا ہے۔

سوّی:

( س و ی ) حکمت و تدبیر سے کسی چیز کو درست کرنا: الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ ۔۔۔ {۸۲ انفطار: ۷}

عَلِيْمٌ

( ع ل م ) عالم کا صیغہ مبالغہ۔ کسی عالم کے بارے میں جب یہ بتانا مقصود ہو کہ وہ زیادہ اور خوب جاننے والاہے تو اسے علیم کہتے ہیں۔

تفسیرآیات

الہٰی تصور کائنات کے مطابق انسان مخدوم کائنات ہے۔ وہ صرف بندۂ زر نہیں اور نہ ہی اقتصادی عوامل اور پیداواری وسائل کا غلام ہے۔ الٰہی انسان سے تو یہ خطاب ہوتا ہے: ھُوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۔۔۔۔

وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ {۴۵ جاثیہ: ۱۳}

جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ {۱۴ ابراہیم : ۳۳}

اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔

الہٰی انسان کی عزت و تکریم کے بارے میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ۔۔۔ {۱۷ اسراء: ۷۰}

اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

خُلِقَ لَکُمْ لِتَعْتَبِرُوْا بِہِ وَ تَتَوَصَّلُوْا بِہِ اِلَی رِضْوَانِہِ وَ تَتَوَقَّوا مِنْ عَذَابِ نِیْرَانِہ ۔ {تفسیر امام حسن عسکریؑ ص ۲۱۵}

یہ سب کچھ تمہارے لیے خلق ہوا ہے تاکہ تم اس سے عبرت حاصل کرو اور اسے اللہ کی خوشنودی کا وسیلہ بناؤ اور اس کے ذریعے آتش جہنم سے بچنے کا سامان مہیا کرو۔

اس آیت سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون بنتا ہے، جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں خلق فرمایا: خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ ۔۔ {۴۱ حم سجدہ : ۹۔ زمین کو دو دن میں پیدا کیا} اس کے بعد زمین کو اس پر بسنے والوں کے لیے مسخر کیا اور چار دن میں اسے قابل استفادہ بنا دیا: وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ۔۔۔ {۴۱ حم سجدہ: ۱۰۔ اور اس میں چار دنوں میں سامان خوراک مقرر کیا}

اس کے بعد آسمانوں کی خلقت کا مرحلہ آتا ہے: ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ ۔۔۔ {۴۱ حم سجدہ: ۱۱} ”پھر آسمان کا قصد کیا۔“ البتہ وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ۔ {۷۹ نازعات:۳۰۔ اور اس کے بعداس نے زمین کو بچھایا۔} سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا۔

دونوں آیات سے مجموعی طور پر جو مطلب سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین کو خلق فرمایا، پھر آسمانوں کا قصد کیا اور انہیں سات آسمانوں کی شکل میں مرتب کیا۔ اس کے بعد زمین کو دحو کیا۔

عام طور پر دحو کا ترجمہ ’’ بچھانا‘‘ کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں ترتیب کار یہ ہے :

۱۔ زمین کی خلقت۔

۲۔ آسمانوں کی خلقت۔

۳۔ زمین کا بچھانا۔

راغب نے مفردات میں دحو کا یہ معنی بیان کیا ہے: ازالھا عن مقرھا۔ زمین کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دیا۔ اس صورت میں ترتیب عمل اس طرح ہو گی :

۱۔ زمین کی خلقت۔

۲۔ آسمانوں کی خلقت۔

۳۔ زمین کو مدار میں چھوڑنا، اسے حرکت دینا۔ یعنی زمین کی خلقت آسمانوں سے پہلے ہوئی مگر اسے اصل جگہ سے ہٹا کر حرکت دینے کا عمل بعد میں انجام پایا۔ واللہ اعلم بالصواب

قرآن مجید کی متعدد آیات میں سات آسمانوں کا ذکر ہے۔ ان آیات میں آسمانوں کے لیے جمع کا صیغہ سَمٰوٰتٍ ذکر کیا گیا ہے جب کہ زمین کے لیے مفرد کا صیغہ الۡاَرۡضَ ذکر ہوا ہے۔ صرف ایک جگہ آسمانوں کے ذکر کے بعد زمین کا ذکر وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ۔۔۔ {۶۵ طلاق: ۱۲} کی تعبیر کے ساتھ آیا ہے، جس میں اس بات کی صراحت موجود نہیں ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں، کیونکہ مِثۡلَہُنَّ میں تعدا دکے لحاظ سے مِثلیّت ضروری نہیں بلکہ ممکن ہے کہ عناصر تخلیق یا دیگر جہات میں مِثلیّت مراد ہو۔

سات آسمانوں کے بارے میں ہماری معلومات نہایت محدود ہیں۔ قدیم زمانے میں کچھ حضرات نے بطلیموسی تصور افلاک کی روشنی میں سات آسمانوں کی توجیہ سات سیاروں کے ساتھ کی ہے۔

واضح رہے کہ اولاً تو بطلیموسی تصور افلاک صد در صد باطل ثابت ہوا ہے۔ ثانیاً ہمارے پورے نظام شمسی کو کائنات کے اس حصے میں بھی کوئی اہمیت حاصل نہیں جو ہمارے مشاہدے میں آچکا ہے اور کائنات کا وہ حصہ جو ہمارے مشاہدے میں نہیں آیا اس کا اندازہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کائنات میں اگر ہمارا پورا نظام شمسی تباہ ہو جاتا ہے تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے ایک چیونٹی کسی کے پاؤں تلے آکر ہلاک ہو جائے۔ لہٰذا یہ تصور مضحکہ خیز ہے کہ سات آسمانوں سے مراد سات سیارے ہیں۔

سات آسمانوں میں سے کسی ایک آسمان کے بارے میں بھی اگر کچھ تفصیل ہمیں معلوم ہو جاتی تو باقی آسمانوں کے بارے میں ایک اجمالی تصور قائم کرنا ممکن ہوتا۔ روایات میں بھی آسمان اول، دوم، سوم تا آخر کا ذکر آتا ہے، لیکن کسی آسمان کی ہیئت ترکیبی کے بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔

البتہ قرآن میں تین آیات ایسی ہیں جن سے آسمان اول کی تشخیص میں کچھ مدد ملتی ہے:

پہلی آیت: اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ {۳۷ صافات: ۶}

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا،

دوسری آیت: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ۔۔ {۴۱ حم سجدہ: ۱۲}

اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا۔

تیسری آیت: وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ {۶۷ ملک : ۵}

اور بے شک ہم نے قریب ترین آسمان کو (ستاروں کے) چراغوں سے آراستہ کیا۔

ان آیات سے بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جو ستارے اور کہکشائیں انسان کے مشاہدے میں آئی ہیں، وہ سب سات آسمانوں میں سے صرف آسمان اول السَّمَآءَ الدُّنۡیَا سے متعلق ہیں۔ اس مؤقف کے مطابق آسمان اول کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ بعض کہکشاؤں سے روشنی چلے ہوئے اربوں سال گزر چکے ہیں، لیکن ہنوز ہم تک نہیں پہنچی۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکینڈ ہے۔

لہٰذا دیگر آسمانوں کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔

اہم نکات

۱۔ انسان مخدوم کائنات ہے۔

۲۔ نظام کائنات توحیدکی مستحکم ترین دلیل ہے۔

تحقیق مزید: تفسیر الامام ص ۲۱۵۔ عیون اخبار الرضا ۲: ۱۲


آیت 29