آیت 30
 

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

تشریح کلمات

ملائکۃ:

ملک کی جمع ہے اور الوک سے ماخوذ ہے۔ اَلَکَ لِیْ وَ اَلَکَنِیْ اَیْ اَرْسَلَنِیْ یعنی پیغام رسانی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر فرشتے اللہ کے پیغامات دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ملک کہا جاتا ہے۔ وجود ملائکہ پر قدیم فلاسفہ نے بھی ’’امکان اشرف‘‘ کے عنوان سے استدلال کیا ہے۔ فرشتے چونکہ غیر مادی مخلوق ہیں، اس لیے ان میں کسی قسم کی نامطلوب خواہشات نہیں ہوتیں اور نہ یہ قابل امتحان و آزمائش ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ ارتقا و تکامل کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ فرشتے معصوم ہوتے ہیں۔ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ ۔۔۔ {۶۶ تحریم :۶ ’’ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔} کیونکہ عصیان کا مادہ (تضاد، خواہشات) ان میں نہیں ہوتا۔

متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کے نیک اعمال کے نتیجے میں فرشتوں کی اس نوری جماعت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، یعنی یہ وقتاً فوقتاً خلق ہوتے رہتے ہیں۔

خلیفۃ:

(خ ل ف) جانشین، نائب، کسی کی طرف سے اس کے امور کو انجام دینے والا۔ خَلَفَ فَلَانٌ فَلَانًا اَیْ قَامَ بِالاْمَرِ عَنْہٗ ۔

سفک:

(س ف ک) ناحق خون بہانا۔

تسبیح:

( س ب ح ) ہر قسم کی آلودگی سے پاک و منزہ قرار دینا۔ اصل میں تسبیح تیزی سے گزرنے کو کہتے ہیں اور کسی سے برائی کو دور قرار دینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ عبادت سریع بھی مراد لی جاتی ہے: اَلسَرِیْعُ فِی عِبَادَۃِ اللّٰہِ ۔ (راغب)

تقدیس:

( ق د س ) پاکیزگی کی گواہی دینا۔

تفسیرآیات

خلافت الٰہیہ: اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ روئے زمین پر ایک مکلف مخلوق امتحان و آزمائش کے لیے بھیجی جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احسن عمل کا امتیازی نشان کون حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ حکمت و رحمت الٰہی کا تقاضا یہ تھا کہ اس مخلوق کے بسنے سے پہلے اس کی ہدایت و راہنمائی کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ لوگ زمین میں اپنی نیابت و خلافت کی ذمہ داری کے اہل ثابت ہو جائیں۔ لہٰذا اس مخلوق کی خاطر مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔ {۲ بقرۃ: ۲۹} خلق فرمایا اور وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ۔۔۔ {بقرۃ: ۳۱۔ اللہ نے آدمؑ کو تمام نام سکھا دیے} نیز عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ۔۔۔ {۹۶ علق : ۵} اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ کے ذریعے مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔ {۳۱ لقمان : ۲۰۔} اور وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ۔۔۔ {۶ انعام: ۹۶} کو اس کے لیے مسخر کر کے اس کے اندر مختلف اور متضاد خواہشات ودیعت فرمائیں۔

پھر اس مخلوق کو ارتقا و تکامل کے قابل بھی بنا دیا۔ اس کے بعد کسی مصلحت و حکمت کے تحت فرشتوں کو آگاہ فرمایا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ ملکوت اعلیٰ میں اعلان ہو گیا کہ اس نائب کی خلقت ہونے والی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

اَلْحُجَّۃُ قَبْلَ الْخَلْقِ وَ مَعَ الْخَلْقِ وَ بَعْدَ الْخَلْقِ ۔ {اصول الکافی ۱ :۱۷۷}

حجت خدا خلقت سے پہلے، خلقت کے ساتھ اور خلقت کے بعد بھی ہے۔

خلیفہ کے بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں:

۱۔ زمین پر پہلے کچھ فرشتے یا جن بستے تھے۔ جب اللہ نے ان کی جگہ آدم (ع) کو خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ بولے: ہم آپ کی تقدیس و تسبیح کرتے ہیں تو اس نئی مخلوق کو آپ کس حکمت کے تحت خلیفہ بنا رہے ہیں۔

۲۔ اولاد آدم نسلاً بعد نسلٍ ایک دوسرے کی جانشین ہو گی، اس لیے آدم (ع) کو خلیفہ کہا گیا۔

۳۔حضرت آدم (ع) زمین پر اللہ کی طرف سے خلیفہ اور اللہ کے نمائندہ ہیں۔

ان تین اقوال میں سے آخری قول درست ہے اور اس کی تائید میں متعدد آیات بھی پیش کی جاتی ہیں:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ ۔۔۔۔ {۶ انعام :۱۶۵}

اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے۔

انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کی دو صورتیں ممکن ہیں:

پہلی صورت:انسان عالم شہود و عیاں اور محسوس دنیا میں اللہ کا جانشین ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ خود عالم ناسوت یعنی محسوس میں نہیں آ سکتا، لہٰذا انسان کی شکل میں اللہ نے تجلی فرمائی، اس لیے انسان کو خلیفہ فرمایا۔

دوسری صورت: یہ ہو سکتی ہے کہ زمین کو نور خدا سے روشن کرنے اور اہل ارض کو اپنی طرف دعوت دینے کے لیے اللہ نے انسان کو اپنا جانشین بنایا۔ اس صورت میں ہادیان برحق ہی خلیفۃ اللہ ہو سکتے ہیں۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تسبیح و تقدیس کے استدلال کے جواب میں وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا کہ کر آدم (ع) کے علم کو پیش کیا۔ یہ بات دوسرے دو نظریات سے مناسبت نہیں رکھتی۔ لہٰذا حضرت آدم (ع) رسول اور نبی ہونے کے لحاظ سے ذاتی طور پر اللہ کے نمائندہ اور حجت خدا ہیں اور ابو البشر ہونے کے ناطے من حیث النوع بھی خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہیں۔

عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام علم و دانش میں برتری کی وجہ سے خلافت الٰہیہ کے مقام پر فائز ہوئے۔ بنابریں وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تسبیح و تقدیس پر علم کو فضیلت حاصل ہے: مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ سے معلوم ہوتا ہے کہ متضاد صفات والی اس متحول مخلوق کو علم و قابلیت دینے کی راہ میں فساد و خون خرابہ حائل ہو تو بھی علم کی فضیلت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔

علم ملائکہ: فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ بنی نوع انسان کی خلافت سے روئے زمین پر فساد و خون خرابہ ہو گا؟ یہاں عموماً چند جوابات دیے جاتے ہیں:

۱۔ فرشتے زمین پر چلنے والی سابقہ مخلوقات میں اس بات کو دیکھ چکے تھے۔

۲۔ خدانے انہیں پہلے بتا دیا تھا۔

۳۔ ملائکہ خود سمجھ گئے تھے کہ مادی مخلوق متضاد اور مختلف قوتوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس میں اگر جذبہ ایثار ہے تو جذبہ انتقام بھی موجود ہے۔ رحم کا مادہ پایا جاتا ہے تو غضب کی خصلت بھی پنہاں ہے۔ لہٰذا روئے زمین پر مختلف خواہشات کی جنگ رہے گی اور یہ مخلوق مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں ایک دوسرے سے دست بہ گریباں رہے گی، کیونکہ زندگی تو اجتماعی ہی ہو سکتی ہے، انفرادی زندگی ممکن نہیں ہے۔

ملائکہ کا یہ خیال تھا کہ خلقت کا واحد مقصد تسبیح و تقدیس ہے، جسے وہ بطریق احسن انجام دے رہے ہیں۔ ارشاد قدرت ہوا: اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ فرشتوں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مقصد خلقت ان کے اس عمل تک محدود نہیں، بلکہ مطلوب خالق کچھ اور ہے۔

اہم نکات

۱۔ تسبیح و تقدیس پر علم کو برتری حاصل ہے۔

۲۔ انسان کو اللہ نے ابتدا ہی سے انسان خلق کیا ہے۔ وہ ارتقائے انواع کے تسلسل کی ایک کڑی نہیں ہے، جیسا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا ہے۔

۳۔ روئے زمین پر انسان کو آزمائش کے لیے بھیجاگیااوراسے ایک دیرینہ اور ازلی دشمن اور اس کے ناپاک عزائم سے آگاہ کر دیا گیا۔

۴۔ شجرۂ ممنوعہ سے لغزش اورابلیس کے دھوکے سے آزمائشوں کا آغاز ہوا۔

۵۔ آزمائش میں کامیابی کا معیار علم اور حسن عمل ہے۔

۶۔ خلیفہ کے انتخاب کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۲: ۲۱۰۔ ۴: ۱۹۹۔ شواہد التنزیل ۱: ۹۷ الاحتجاج ۲۱۴۔ کمال الدین ۱: ۴۔ ۱۱ نہج الحق ص ۲۱۱۔ تفسیر العیاشی ۱: ۳۳۔ الخصال ۲: ۲۶۳۔


آیت 30