آیت 23
 

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اگر تم لوگوں کو اس(کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

تشریح کلمات

سورہ:

( س و ر ) بلند مقام۔ بلند عمارت۔ بلند دیوار۔ قرآنی سورتوں میں ایسے بلند پایہ مطالب ہیں جو عام انسانوں کی دسترس سے باہر ہیں، اس لیے انہیں سورہ کہا گیا ہے۔

شہداء:

( ش ھ د ) ’’شاہد‘‘ کی جمع۔ حاضر و ناظر۔ گواہ کو اس لیے ’’شاہد‘‘ کہتے ہیں کہ وہ واقعے کا مشاہدہ کرتا ہے اور ’’شہید‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ فرشتے فوراً اس کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

قرآن کا ابدی دعویٰ: اس دعوے کے مخاطب الناس یعنی سب لوگ ہیں۔ اس لیے یہ کسی خاص گروہ یا زمانے سے مخصوص نہیں۔ چونکہ قرآن ایک ابدی اور دائمی معجزہ ہے، لہٰذا اس کا دعویٰ بھی ابدی اور دائمی ہے۔ بنا بر ایں اس دعوے کے مخاطبین میں ہر دور اور ہر عصر کے انسان شامل ہیں۔

قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر ایسے دعوے کیے گئے ہیں:

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا {۱۷ اسراء : ۸۸}

کہدیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

اس آیت میں انسانوں کے ساتھ جنات بھی دعوے میں مدمقابل ہیں۔

مِّنۡ مِّثۡلِہٖ کی ضمیر مِّمَّا نَزَّلۡنَا کی طرف لوٹتی ہے۔ یعنی اس قرآن کی سورتوں میں سے ایک سورت کی مثل ہی بنا لاؤ اور اگر ایک فرد سے یہ کام نہ ہو سکے تو اپنے حمائتیوں کو بھی بلا لاؤ۔ یعنی ساری دنیا کے کفار کو بلا لو اور سب مل کر ایک سورت کی مثل بنانے کی کوشش کرو۔

بعض مفسرین فرماتے ہیں: فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ میں بِمِثۡلِہٖ کی ضمیر عَبۡدِنَا کی طرف جاتی ہے۔ یعنی محمد (ص) جیسے آدمی سے ایک سورہ بنوا لاؤ۔ ’’محمد(ص) جیسے‘‘ کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے انسان سے جو کسی انسانی مکتب میں پڑھا ہوا نہ ہو اور جس نے تمہارے ماحول میں پرورش پائی ہو۔ یعنی قرآن اگر انسانی دماغ کی پیداوار ہے اور خود محمد(ص) نے اسے بنایا ہے تو محمد(ص) جیسے کسی اور آدمی سے بھی یہ کام صادر ہونا ممکن ہو گا۔ پس اگر ممکن ہے تو بنا لو اور اگر ممکن نہیں تو ثابت ہو گاکہ یہ قرآن بشری ذہن کی پیداوار نہیں ہے۔

یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے۔کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس قسم کے ماحول میں نہ ہو اور کسی مکتب کا پڑھا ہوا ہے تو اس کے لیے اس جیسا قرآن لانا ممکن ہے۔ جب کہ قرآن کا دعویٰ ابدی ہے کہ ہر زمانے کے جن و انس کے لیے اس جیسا قرآن لانا ممکن نہیں ہے۔

دعوے کی عمومیت: قرآن کا یہ دعویٰ کسی خاص زاویے یا عنوان سے مخصوص نہیں۔ مثلاً یہ کہ صرف فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے قرآن کی مثل لانے کا دعویٰ نہیں، بلکہ اس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ یعنی ایک بلیغ کے لیے بلاغت کا، حکیم کے لیے حکمت کا، قانون دان کے لیے تقنین کا، ماہر نفسیات کے لیے نفسیات کا اور ادیب کے لیے ادبیات کا دعویٰ ہے۔

کیا معجزہ فطری قوانین کے دائرے میں ہوتا ہے؟: اس بات میں شک و تردید کی گنجائش نہیں کہ اس کائنات کا نظام قانونِ علل و اسباب پر مبنی ہے۔ یعنی جب تک کوئی علت کار فرما نہ ہو، تب تک نہ کوئی معلول وجود میں آ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ علت کے بغیر کسی چیز کا معرض وجود میں آنا ناممکن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا معجزہ بھی اس قانون کے تابع ہے؟ اگر جواب مثبت ہے تو ہر معجزے کے مخصوص علل و اسباب تلاش کرنا پڑیں گے۔ مثلاً عصائے موسیٰ (ع) کا اژدھا بننا یا حضرت عیسیٰ (ع) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ایسے معجزات ہیں جن کے مادی و سائنسی اسباب کا ہونا ضروری ہے، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔

اس مقام پر سائنس سے مرعوب اور مغرب زدہ ذہنوں نے ان آیات کی تاویلیں شروع کر دیں، جو ان کے لیے ظاہری اور سطحی طور پر ناقابل فہم تھیں۔

ہم اس اہم اور دقیق مسئلے پر قدرے تفصیل سے بحث کریں گے، تاکہ قارئین محترم اس مسئلے کے اہم نکات سے واقف ہو جائیں:

۱۔ عقل و تجربے کی طرح قرآن بھی یہ اصول تسلیم کرتا ہے کہ ہرواقعے کے پیچھے ایک علت و سبب کار فرما ہوتا ہے۔ مثلا اگرکسی جسم کا حجم پھیلتا ہے تو اس کے پس پردہ اس کی علت یعنی حرارت کار فرما ہوتی ہے۔

۲۔ اس کے ساتھ قرآن کچھ غیر معمولی واقعات کو بھی بطور معجزہ پیش کرتا ہے۔

۳۔ معجزات معمول کے مطابق نہیں ہوتے، لیکن محالات اور ناممکنات سے بھی نہیں ہوتے۔ یعنی معجزہ ناممکن یامحال کو ممکن بنانے کا نام نہیں۔ مثلاً پانچ کو پانچ سے ضرب دی جائے تو معجزے کے ذریعے حاصل ضرب پچیس کی بجائے پندرہ نہیں بن سکتا، بلکہ عقل کے نزدیک معجزات کا تعلق ممکنات سے ہوتا ہے۔

۴۔ معجزات قانون فطرت کی عام دفعات کے بالکل مطابق بھی نہیں ہوتے۔ مثلا ایک چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹنا عقلاً ایک ممکنہ امر ہے، لیکن دو گز کا عصا مارنے سے نہیں، بلکہ طبیعی اور فزیکلی علل و اسباب کے تحت۔ چنانچہ اسی لیے تو معجزات سائنسی تجربات اور معمولات پر پورے نہیں اترتے اور نہ ہی سائنسی علوم اور تجربات ان معجزات اورغیر معمولی طورپر وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے انکار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آج بھی دنیاکے گوشہ و کنار میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی توجیہ تجربات اور سائنسی اصولوں کے مطابق نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً ہپناٹزم وغیرہ۔ ان غیرمعمولی واقعات کی توجیہ میں یہ خیال ظاہر کیا جا تا ہے کہ ان کے پیچھے نامعلوم برقی لہریں کار فرما ہوتی ہیں۔

معجزات بھی چونکہ مادی امور سے ہیں، اس لیے ان کے پیچھے بھی کچھ عوامل و اسباب کار فرما ہوتے ہیں، لیکن یہ عوامل عام مادی و طبیعی قوانین کی سطحی دفعات کے مطابق نہیں ہوتے۔ اسی لیے طبیعی و مادی قوانین تمام معجزات کی مادی توجیہ نہیں کر سکتے۔

۵۔ طبیعیات یامادی قوانین کی عام سطحی دفعات اور ان کے اصول بھی دائمی حیثیت نہیں رکھتے۔

ان تمام باتوں سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ تمام مادی حوادث کے پیچھے سطحی علل و اسباب اور عوامل ضرور کارفرما ہوتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے حقیقی علل و اسباب اور پھر ان سب کے پس پردہ ارادئہ خداوندی کار فرما ہوتا ہے۔

چنانچہ دنیامیں رونما ہونے والے واقعات تین امور میں تقسیم ہوتے ہیں:

الف:عام طور پر رونما ہونے والے واقعات جن کے ساتھ ظاہری اور سطحی اسباب و عوامل موجود ہوتے ہیں، جو تجربات اور سائنسی اصولوں کے اعتبار سے قابل فہم ہوتے ہیں۔ پھر ان کے ماوراء حقیقی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں، جن کی طرف انسان متوجہ نہیں ہوتا۔ سطحی علل و اسباب کے اصول بظاہر ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن ان حقیقی اور غیر مرئی علل و اسباب کے اصول دائمی ہوتے ہیں۔ پھر ان دونوں طرح کے علل و اسباب کے پیچھے ارادۂ خداوندی حکم فرما ہوتا ہے۔

ب: غیر معمولی اور عام حالات و عادات سے ہٹ کر رونما ہونے والے بعض واقعات میں صرف حقیقی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں، جیسے دعا وغیرہ کے اثرات۔

ج : غیر معمولی اور عام حالات و عادات سے ہٹ کر رونما ہونے والے ایسے واقعات جن میں اگرچہ حقیقی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں، لیکن یہ اسباب عام لوگوں کے لیے ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔ معجزہ اسی قسم میں شامل ہے۔ لیکن معجزے اور دعا میں فرق یہ ہے کہ اگر بیماری سے شفا دست مسیحا کے ذریعے ہو تو اس شفا یابی کے علل و اسباب ناقابل تسخیر ہیں، جب کہ دعا کے ذریعے حاصل ہونے والی شفا کے علل و اسباب قابل تسخیر ہیں۔ یعنی دوسرے لوگ بھی انہیں اپنا سکتے ہیں یا ان سے بہتر علل و اسباب مہیا کر سکتے ہیں۔

لہٰذا معجزات قانون علیت سے مستثنیٰ نہیں ہیں،بلکہ تابع علل و اسباب ہیں۔ البتہ معجزات کے علل و اسباب کے بارے میں دو نکتے قابل توجہ ہیں:

۱۔ معجزات کے پیچھے جو علل و اسباب کار فرما ہیں، وہ ہماری فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔

۲۔ ان کے پیچھے غیر مادی علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔ ایک مادی واقعے کے پیچھے غیر مادی عوامل کا کارفرما ہونا کوئی محال بات نہیں۔ ریاضت اور عملیات کے ذریعے انسان ایک غیر مادی طاقت کامالک بن جاتا ہے اور بہت سے ایسے امور انجام دیتا ہے جن کی توجیہ مادی علل و اسباب کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ بنا بر ایں ممکن ہے کہ خدا کے حکم سے، رسول(ص) اور ولی خدا کا ارادہ اظہار معجزہ میں دخیل ہو۔

اہم نکات

۱۔ قرآن کادعویٰ ہمہ گیر اورعالمگیرہے۔

۲۔ قرآن کے دعوے کا جواب دینے سے بشر کی عاجزی اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ایک ابدی معجزہ ہے۔

۳۔ معجزات قانون علیت سے مستثنیٰ نہیں ہیں، لیکن طبیعی قوانین کی عام دفعات اور ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر حقیقی اور غیر مرئی علل واسباب اور ارادۂ خداوندی کے تابع ہیں، جوعام مادی علل و اسباب سے ماوراء ہیں۔


آیت 23