الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ۔

22۔ جَعَلَ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نہیں تھا، بعد میں بنایا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زمین پہلے قابل سکونت نہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے قابل بنایا۔ بچھونے کی تعبیر اختیار کرنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس میں آرام و آسائش کے تمام وسائل فراہم ہیں۔ نہ تو اسے زیادہ سخت بنایا کہ دانہ اگ نہ سکے اور نہ ہی اسے اتنا نرم بنایا کہ چیزیں اس میں دھنس جائیں، نہ اتنی چھوٹی بنائی کہ آکسیجن کے ذرات فضا میں زمین سے منسلک نہ رہ سکیں، نہ اتنی بڑی بنائی کہ ہوائی ذرات فضا میں معلق نہ رہ سکیں۔