وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، (ان مسلمانوں کا تو) ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں۔

اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔اللہ بھی ان کے ساتھ تمسخر کرتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں گے۔

15۔ خدائی تمسخر کا طریقہ یہ ہو گا کہ ان منافقین کو سرکشی میں ڈھیل دے کر مزید تباہی سے دو چار کر دیا جائے گا۔ آیہ شریفہ میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ منافقین سرراہ مومنین سے ملتے تھے تو اظہار ایمان کرتے تھے، جب کہ اپنے شیاطین سے ان کی باقاعدہ نشستیں ہوا کرتی تھیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے، چنانچہ نہ تو ان کی تجارت سودمند رہی اور نہ ہی انہیں ہدایت حاصل ہوئی۔

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تلاش راہ کے لیے) آگ جلائی، پھر جب اس آگ نے گرد و پیش کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور انہیں اندھیروں میں (سرگرداں) چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

16 ۔ 17۔ منافقین کے سیاہ اعمال کے تذکرے کے بعد اب ان کے نتائج بیان ہو رہے ہیں کہ ان لوگوں نے احمقانہ سودا کیا۔ ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی اور سو فیصد گھاٹے میں رہے۔ اسی لیے وہ نفسیاتی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ خداوند کریم نے منافقین کے اس اندرونی انتشار اور نفسیاتی الجھن کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی حالت اس شخص کی سی ہے، جسے روشنی حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور اس نے ارد گرد دیکھا اور اشیاء کے نفع و ضرر سے آگاہی حاصل کی ہی تھی کہ یکایک یہ روشنی چھن گئی اور چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ایسا شخص احساس محرومی سے بہت زیادہ دو چار ہوتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جس نے روشنی دیکھی ہی نہیں اور پہلے سے اندھیرے میں ہے۔

صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ یا جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں اور گرج و چمک ہو، بجلی کی کڑک کی وجہ سے موت سے خائف ہو کر وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

19۔ 20۔ منافقین ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں چار سو تاریکیاں ہیں اور بجلی کی گرج چمک، جہاں ہر وقت موت سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے۔ وہ ذہنی اضطراب سے بچنے کے لیے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں، جیسا کہ آج کا مضطرب انسان نشے اور خواب آور گولیوں کا سہارا لیتا ہے۔

قرآن ایک حیات آفرین اور حیات ساز دستور ہونے کے لحاظ سے مومنین کی فکری اور شعوری تربیت کر رہا ہے تاکہ مومنین اپنے ارد گرد کے مختلف افراد کے ساتھ مناسب روش اختیار کریں۔ منافقین کی نفسیاتی پریشانی، ذہنی اضطراب، اخلاقی پستی اور برے عزائم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور مومنین کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان کے دل مریض ہیں، یہ معاشرتی اصلاح کی آڑ میں اجتماعی فساد پھیلاتے ہیں، تکبر اور احساس برتری جیسے موذی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں۔